اسلام آباد: وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے حالیہ بیان پر سرکاری افسران اور متعلقہ اداروں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی بیوروکریسی کا نصف سے زائد حصہ پرتگال میں جائیدادیں خرید چکا ہے اور وہاں کی شہریت کے حصول کی تیاری کر رہا ہے۔
خواجہ آصف نے اپنے آفیشل ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر پوسٹ میں لکھا:
"وطن عزیز کی آدھی سے زیادہ بیوروکریسی پرتگال میں پراپرٹی خرید چکی ہے اور شہریت لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ سب نامی گرامی بیوروکریٹس ہیں۔ مگرمچھ اربوں روپے کھا کر اطمینان سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔”
انہوں نے مزید الزام لگایا کہ سابق وزیر اعلیٰ بزدار کے ایک قریبی بیوروکریٹ نے اپنی بیٹیوں کی شادی پر چار ارب روپے صرف "سلامی” کی مد میں وصول کیے اور اب پُرسکون زندگی گزار رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ:
"سیاستدان تو ان کا بچا کھچا کھاتے ہیں اور طنزیہ باتیں سنتے ہیں، نہ پلاٹ، نہ غیر ملکی شہریت، کیونکہ انہیں الیکشن لڑنا ہوتا ہے۔ پاک سرزمین کو بیوروکریسی نے آلودہ کر دیا ہے۔”
تاہم، جب اس معاملے پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور قومی احتساب بیورو (نیب) سے رابطہ کیا گیا تو دونوں اداروں نے وزیر دفاع کے الزامات کو مسترد کر دیا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک سینئر افسر نے کہا:
"ہمارے پاس ایسا کوئی ریکارڈ یا انٹیلی جنس رپورٹ موجود نہیں جو یہ ظاہر کرے کہ بیوروکریسی کا نصف سے زائد پرتگال میں جائیداد خرید چکا ہے یا شہریت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔”
اسی طرح، نیب کے ایک ذریعے نے بھی کہا:
"ہمیں اس نوعیت کے کسی انکشاف کی اطلاع نہیں ہے، نہ ہی ہمارے زیرِ تفتیش ایسے کوئی کیسز ہیں جو وزیر موصوف کے دعووں سے مطابقت رکھتے ہوں۔”
سینئر افسران نے اس بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ آصف کے اس دعوے سے بیوروکریسی میں ناراضی کی لہر دوڑ گئی ہے، جس سے سسٹم کا مورال متاثر ہو سکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک ذریعے نے وضاحت دی کہ جس بیوروکریٹ کا ذکر عثمان بزدار کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر کیا گیا، اسے پہلے ہی وزیر اعظم کی منظوری سے برطرف کیا جا چکا ہے اور اس کے خلاف انکوائری کے بعد تادیبی کارروائی بھی کی گئی تھی۔
اگرچہ حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بیوروکریسی میں بعض کرپٹ عناصر موجود ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ پوری سروس کو بدعنوان قرار دینا ناانصافی ہے۔ ایک سینئر بیوروکریٹ نے کہا:
"اگر وزیر دفاع کے پاس واقعی کوئی شواہد موجود تھے تو انہیں سوشل میڈیا کے بجائے متعلقہ اداروں، جیسے وزیر اعظم، نیب یا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے رجوع کرنا چاہیے تھا، تاکہ قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جا سکتی۔”