اسلام آباد — پاکستان میں تمباکو نوشی سے جڑے مسائل پر ہونے والی بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔ ایک طرف انسدادِ تمباکو نوشی کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) ہیں جو مسلسل سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں، تو دوسری طرف سگریٹ ساز صنعت اور ان سے جُڑے طاقتور سیاسی عناصر ہیں، جنہیں ٹیکس بڑھنے سے بظاہر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
“ٹیکس بڑھاؤ” کا شور… لیکن اصل چور کون؟
غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے کا بیانیہ عرصہ دراز سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق ٹیکس میں اضافہ سگریٹ نوشی میں کمی کا سبب بنے گا۔ تاہم اس یک نکاتی ایجنڈے کے پیچھے چھپی پیچیدگیاں عوام کے علم سے باہر رہتی ہیں۔
دوسری جانب سگریٹ انڈسٹری کے بڑے بڑے سیٹھ اور ان سے منسلک سیاستدان اس پر کوئی سنجیدہ ردعمل ظاہر نہیں کرتے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے سے ہی ٹیکس کی ادائیگی سے بچ نکلنے کے راستے نکال چکے ہیں۔ اربوں روپے کی ٹیکس چوری، جعلی انوائسنگ، اور غیر قانونی مینوفیکچرنگ کے ذریعے یہ طبقہ ٹیکس قوانین کا کھلم کھلا مذاق اڑا رہا ہے۔
غیر قانونی سگریٹ کا راج — ریاستی نظام کی ناکامی
پاکستان میں اس وقت تقریباً 40 سے 45 فیصد سگریٹ مارکیٹ غیر قانونی برانڈز پر مشتمل ہے۔ یہ وہ برانڈز ہیں جو نہ صرف حکومتی رجسٹریشن سے باہر ہیں بلکہ کسی قسم کا فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) یا سیلز ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔ یہ سگریٹ دکانوں اور دیہاتی علاقوں میں کھلے عام فروخت ہوتے ہیں، اور ان کی قیمتیں قانونی سگریٹ سے کہیں کم ہوتی ہیں، جس کے باعث نوجوان اور کم آمدنی والے افراد آسانی سے ان کے عادی بن رہے ہیں۔
کسان اور مقامی پیداوار بھی زد میں
صورتحال صرف اتنی نہیں کہ ٹیکس چوری ہو رہی ہے، بلکہ تمباکو اگانے والے کسان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ انہیں نہ تو حکومت کی طرف سے کوئی سبسڈی ملتی ہے، نہ ہی منڈیوں میں مناسب قیمت۔ اکثر اوقات ان کی پیداوار وہ غیر قانونی فیکٹریاں خرید لیتی ہیں جو کوئی ریکارڈ نہیں رکھتیں اور نہ ہی حکومت کو کوئی رپورٹ دیتی ہیں۔ یوں یہ کسان قانونی نظام سے باہر ایک غیر منظم معیشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
منی لانڈرنگ اور غیر ملکی اثاثے — ٹیکس چوری کے اگلے مرحلے
جتنا زیادہ ٹیکس بڑھے گا، اتنا ہی زیادہ منافع غیر قانونی طریقوں سے کمایا جائے گا، جسے مختلف ذرائع سے بیرونِ ملک منتقل کیا جاتا ہے۔ اس پیسے سے دبئی، لندن اور ملائیشیا میں جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔ اس دھندے میں ملوث عناصر نہ صرف معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ ریاستی اداروں کو کمزور کر رہے ہیں۔
سگریٹ سیٹھ، سیاستدان اور این جی اوز — خاموش اتحاد؟
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سگریٹ ساز صنعت، خاص طور پر وہ ادارے جو غیر قانونی سگریٹ بناتے ہیں، ایسے سیاستدانوں کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں جو ان کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔ دوسری جانب بعض NGOs صرف ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ کر کے اپنی سرگرمیوں کو نمایاں کرتی ہیں، لیکن وہ یہ نہیں بتاتیں کہ مارکیٹ میں غیر قانونی سگریٹ کی بھرمار اس “ٹیکس ایجنڈے” کو ناکام بنا دیتی ہے۔
اگر مقصد واقعی تمباکو نوشی کو کم کرنا ہے تو صرف ٹیکس بڑھانا کافی نہیں، بلکہ:
•غیر قانونی سگریٹ کی پیداوار اور ترسیل کے خلاف موثر کارروائی
•سگریٹ پر ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا مکمل نفاذ
•کسانوں کو رسمی معیشت میں شامل کرنا
•انسدادِ منی لانڈرنگ اداروں کو فعال بنانا
یہ تمام اقدامات ایک مربوط پالیسی کے ذریعے ہی ممکن ہیں، وگرنہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کی محض ایک نعرہ بازی عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگی۔
پاکستان میں تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے صرف پالیسی نہیں، بلکہ نیت اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جب تک سگریٹ سیٹھ، کرپٹ سیاستدان اور خود ساختہ صحت کے علمبردار این جی اوز کے درمیان مفادات کا گٹھ جوڑ ختم نہیں ہوتا، اس وقت تک عوام صحت اور معیشت دونوں میں نقصان اٹھاتے رہیں