کل ایران نے اسرائیل کے شہر Haifa پر ایک شاندار حملہ کیا۔ نہ صرف اس کی آئل ریفائنری پر مزائل گرے بلکہ ملٹری ٹارگٹ پر بھی گرے۔ اس وقت ٹویٹر پر خوبصورت وڈیوز گردش کررہی ہیں جس میں غزہ، لبنان، عراق یمن اور دیگر کئی ممالک میں لوگ جشن منارہے ہیں۔ 20 ماہ سے جاری نسل کشی کے بعد پہلی بار اسرائیل کو معلوم ہورہا ہے کہ نہتے بچوں کے قتل عام اور کسی آزاد ریاست سے جنگ میں کیا فرق ہوتا ہے۔
ایرانی لیڈرشپ نے امریکہ کی مذاکرات کی پیشکش ٹھکرا دی ہے جو کہ بلکل درست فیصلہ ہے۔ مذاکرات اتوار کے لئے طے تھے لیکن اس سے دو دن قبل اسرائیل نے پیشگی حملے (preemptive strikes) کرکے عسکری قیادت سمیت مزاکراتی ٹیم کے ممبران کو بھی شہید کردیا۔ ایران نے مغرب کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کی طرف سے کسی قسم کی بھی مداخلت کی گئی تو بہرے خلیج میں امریکی فوجی اڈوں پر حملے کرکے جنگ کے دائرے کار کو وسیع کردیا جائے گا۔ یار رکھیں کہ ایران ہر حملے کی وجہ نہ عورتوں کے حقوق اور نہ جمہوریت کی بحالی ہے۔ یہ دونوں چیزوں کا فقدان سعودی عرب میں ایران سے بھی زیادہ ہے لیکن ان پر ہتھیاروں اور ڈالروں کی بارش کی جارہی یے۔ اصل وجہ صرف اور صرف ایران کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کاروں کی حمائت ہے اور اس حملہ کا مقصد صرف اور صرف اس حکومت کا تختہ الٹ کر ایک اسرائیل اور مغرب نواز حکومت کو تہران پر مسلط کرنا ہے۔
نسل کش ریاستوں کے اوپر آسمان اس وقت ہی حسین لگتا ہے جب مخالفین بم برسارہے ہوں۔ پوری عرب دنیا میں کل رات جشن منایا گیا۔ فلسطین عراق لبنان یمن مصر اور تمام ممالک کے کمیینسٹ پارٹیوں نے ایران کے دفاع کے حق کو تسلیم کیا اور ایران جی غیر مشروط حمایت کی یے۔ ایک ہمارے لبرل اور لیفٹ ہیں جو یا تو مسلم دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے مسلسل ہندوستان اور اسرائیل سے توقعات لگائے بیٹھے ہیں یا پھر ایران پر صہونی حملے کے دوران ملائیت کے خلاف پوسٹ کررہے ہیں۔ کیا زبردست سیاسی بصیرت پائی ہے کہ غزہ میں نسل کشی اور شام لبنان یمن پر مسلسل بمباری کے بعد اگر کوئی ایک ملک مشکل ترین حالات میں صہونیت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہا ہے تو اسی لمحے میں اس ملک کے اندرونی تضادات کو اجاگر کرکے اس کی حمایت کرنے سے انکار کیا جارہا یے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو غزہ میں نسل کشی کے خلاف بیان تو دیتے ہیں لیکن اگر کوئی ریاست غزہ کی حمایت میں ایکشن لے تو پھر اس ریاست کو اس کے اندرونی معمالات کی بنا پر مداخلت کے قابل نہیں سمجھتے۔ یہ فلسطینی عوام اور وہاں کے لیفٹ کی بھی سننے کو تیار نہیں جو اس وقت ایران کی حمایت کررہا یے۔ در حقیقت یہ لوگ غزہ کی نسل کشی کے خلاف صرف لفاظی کرتے ہیں اور اپنی امیدیں کا محور آج بھی مغرب دہلی اور اسرائیل میں ہی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں کہ پاکستان میں بھی ایک دہشت گرد تنظیم نے پچھلے ماہ مودی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے open letter بھی لکھ دیا۔
ایران کو اس ہمت اور بہادری کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ مغرب کے تمام ممالک اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں اور ایران پر آج بھی پابندیاں عائد ہیں۔ لیکن ایران مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ پوری عالمی برادری کو آئینہ دکھانے رہا ہے جو 20 ماہ سے غزہ میں بچوں کی نسل کشی کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ہم میں اکثر اس صورتحال میں ایران کی کوئی عملی مدد تو نہیں کرسکتے لیکن جو لوگ اس موقع پر اپنی اخلاقی حمایت بھی ایران کو دینے کے بجائے ایران اور اسرائیل میں مماثلت تلاش کررہے ہیں، وہ بدترین اخلاقی پستگی کا شکار ہیں جنہیں لیفٹ یا لبرل کہنا اس روایت سے غداری ہے۔
اگر اسرائل فلسطین میں کٹھ پتلی حکومت بنانے میں ناکام رہا ہے تو تہران میں بھی اسے ناکامی ہوگی۔ دنیا نسل کشی کے خلاف بیدار ہورہی ہے۔ پورا خطہ صہونیت کے خلاف یکجا ہورہا ہے۔ ہزاروں لاکھوں فلسطینی بچوں کی قربانیاں رائگاں نہیں جائیں گی۔ دہائیوں سے فلسطین کع۔مٹانے کی ہر کوشش ناکام ہوئی ہے۔ ایک دن فلسطین ضرور آزاد ہوگا اور صہونیت تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بنے گی۔