تازہ ترینکالمز

یورپی سفارتی مشنز کے زیر نگرانی اسلام آباد میں بسا ایک خوبصورت یورپی گاؤں کا دورہ اور چند دلچسپ تاثرات

گردش

انسانی خوشی، آزادی، ترقی، تہذیب، اتحاد اور تنوع سے بھرپور سرزمین یورپ کے سفارتی مشنز کے زیر اہتمام اسلام آباد میں یورو ویلج کے نام سے ایک بھرپور ثقافتی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ میرا ذہن ہمیشہ انسانوں کے درمیان مشترکات ڈھونڈنے میں مصروف رہتا ہے جبکہ دل اس وقت خوشی کی چوٹی پر رقصاں ہوتا ہے جب میں مختلف النوع لوگوں کو قریب آکر ایک دوسرے سے ہنستے مسکراتے اور باہم تبادلہ خیالات کرتے دیکھ لوں۔ منفی پراپیگنڈے اور غلط فہمیوں کے پردے اگر درمیان سے ہٹے تو مجھے یقین ہے خیر، خوشی، اعتماد اور تعاون کے سرچشمے ایسے ہی مقامات سے جاری ہوں گے۔

پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹ کے مقام پر منعقد یورو ویلج میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے بچوں، جوانوں، خواتین اور بزرگوں نے بھرپور انداز میں شریک ہو کر یورپی طرزِ زندگی، مصنوعات، معلومات عامہ اور رنگ بہ رنگ پکوانوں سے نہ صرف آگاہی حاصل کی بلکہ محظوظ بھی ہوئے۔ میں اندازہ نہیں کر سکا کہ کنتی مسکراہٹوں، خیر سگالی کے جذبات اور باہم و دیگر خوش گوار باتوں کا تبادلہ ہوا۔ سب انجانے چند ہی گھنٹوں میں خوب جانے پہچانے ہونے لگے۔ بہار کی آمد آمد ہے ایسے میں بلاشبہ یہ اپنی نوعیت اور اثرات کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک بھرپور اور جامع سفارتی اور ثقافتی سرگرمی ثابت ہوئی۔

ایک خاص بات جس نے ہمیں بہت اچھا تاثر دیا اور جس پہلو کو بالعموم لوگ توجہ نہیں دیتے وہ یورپی اقوام کی مہمان نوازی ہے۔ پچیس تیس سٹالز پر کھانے پینے کی مختلف اشیاء وافر مقدار میں خوشی اور محبت سے پیش کیے جا رہے تھے۔ پیزا، بیکری، چائے، جوس، رنگ بہ رنگ ٹافیاں، چاکلیٹ اور آئس کریم مسلسل شرکاء کو مل رہے تھے اس طرح یورپی ممالک سے متعلق معلومات پر مشتمل سوال نامے بھی سٹالز پر تقسیم ہو رہے تھے جن کے درست جوابات دینے پر انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ اس طرح مختلف یونیورسٹیوں اور اسکالرشپس کے بارے میں آگاہی دے رہے تھے۔ اس کے علاؤہ مختلف یورپی روایتی کھیلوں کے مقابلے بھی جاری تھے جن میں نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔

یورپی یونین کے سفیر نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "یورپی یونین کا بنیادی ماٹو اتحاد اور تنوع کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ اسی روح کے ساتھ ہم دنیا کے قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں اور اسی جذبے سے پاکستان کے ساتھ بھی مختلف مدات میں باہمی اشتراک اور تعاون جاری رکھیں ہوئے ہیں”۔ تیس پینتیس اعلیٰ سفارت کاروں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر خوشی اور جوش و خروش سے آنے والوں کی پزیرائی کی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود رہیں لیکن اس کے باوجود ڈسپلن اور صفائی ستھرائی کا بھرپور اہتمام نظر آیا۔

میں ہمیشہ دوستوں کی محفلوں میں یہ بات دہراتا رہتا ہوں کہ "یورپ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یورپ اپنی تاریخ میں بے شمار تلخ و شیریں تجربات سے گزر کر آج ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے جس کو ترقی اور خوشحالی کے تناظر میں ایک مثالی پوزیشن کہا جا سکتا ہے۔ یورپ کا دامن ان معنوی اور مادی وسائل اور ساز و سامان سے خوب بھرا ہے جنہیں سیکھ کر ہم اپنے ہاں موجود جمود زدہ سیاسی، سرکاری اور سماجی ڈھانچے کو بہتر اور فعال بنا سکتے ہیں۔ ہم نظم و ضبط، شراکت و معاونت، فعالیت و شفافیت اور تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں یورپ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور انہیں کام میں لاکر اپنے احوال اور حالات میں خاطر خواہ بہتری لا سکتے ہیں۔

انسان مغرب کا ہو یا پھر مشرق کا، جنوب کا ہو یا پھر شمال کا اور بے شک اس کا تعلق کسی بھی نسل، زبان، خطے یا مذہب سے ہو، اس طرح رنگ مختلف سہی، سوچ مختلف سہی اور تمدن بھی مختلف سہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کا مضبوط رشتہ ہم سب کے درمیان تاریخ کے پہلے لمحے سے موجود ہے اور اس رشتے کے کم سے کم تقاضوں میں ایک دوسرے کا احترام، پُرامن بقائے باہم، مشترکہ مقاصد میں تعاون، اور ضروری اتحاد شامل ہے۔ انسان جہاں سے بھی تعلق رکھتا ہو حقیقت یہ ہے کہ اکثریت خیر کی جانب مائل رہتی ہے۔

اکیسویں صدی اقوام عالم سے عالمی سطح پر اتحاد، اشتراک اور تعاون کی متقاضی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اقوام اقوام سے اور افراد افراد سے ضروری حد تک نہ صرف آگاہ رہیں بلکہ ایک دوسرے کے بارے میں لاحق غلط فہمیوں کا ممکنہ حد تک ازالہ بھی کریں اور ایک معقول اور مبنی بر انصاف نقطہ نظر اپنا لیں۔ انصاف پر مبنی نقطہ نظر کے لیے ضروری ہے کہ مختلف حقائق کا کما حقہ ادراک ہو۔

وزٹ میں میرے ساتھ میرے درینہ دوست اسلامی یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کا طالب علم طیب صدیقی، میرا عزیز از جان بیٹا سید محمد حاتم اور ایک قریبی رشتہ دار بزرگ بھی شامل تھے۔ محمد طیب صدیقی بھائی کو بین الاقوامی سفارت کاری سے حد درجہ دلچسپی ہے اور وہ اس سلسلے میں کوئی بھی سرگرمی نظر انداز نہیں کرتا۔ یورو ویلج کے دورے سے سب خوش ہوئے، اور اس موقع کو مختلف اعتبارات سے حد درجہ مفید قرار دے دیا۔ سید محمد حاتم جان کی خوشی اور جوش و خروش دیدنی تھا وہ مختلف سٹالز پہ جاتا، لوگوں سے پر اعتماد انداز میں ملتا، دعا و سلام کرتا، ان سے مختلف سوالات پوچھتا، مفت اور قیمتاً مزے دار چیزوں سے استفادہ کرتا اور خوشی خوشی آگے بڑھتا، مجھے کہا "بابا آج تو بالکل عید کا دن لگ رہا ہے”۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button