امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان روس یوکرین جنگ بندی سے متعلق طویل ملاقات کسی بڑے بریک تھرو کے بغیر ختم ہوگئی ہے۔
فلوریڈا میں صدر ٹرمپ کی رہائش گاہ مارالاگو میں ہونے والی یہ ملاقات دو گھنٹے سے زائد جاری رہی جس میں جنگ کے خاتمے کے لیے امن منصوبے کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تاہم، یوکرین کے مشرقی علاقے ڈونباس کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال برقرار رہی اور دونوں رہنما اس معاملے پر کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔
پی ٹی آئی یا ن لیگ جو بھی غلط ہو، اخلاقی حدود میں رہ کر ان پر تنقید کریں: سہیل آفریدی
ملاقات کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدے کے قریب ہیں، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ مذاکرات پیچیدہ ہیں اور امن منصوبے کے بعض اہم نکات پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ڈونباس کے مستقبل سے متعلق چند مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔ ٹرمپ نے خبردار بھی کیا کہ غیر متوقع رکاوٹیں عمل کو متاثر کر سکتی ہیں، اس لیے یوکرین کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ جلد معاہدہ کر لے، ورنہ روس مزید علاقوں پر قبضہ کر سکتا ہے۔
دوسری جانب یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بتایا کہ مذاکرات کاروں نے گزشتہ ہفتوں میں اہم پیش رفت کی ہے اور معاہدے کے 90 فیصد نکات پر اتفاق ہو چکا ہے۔ ڈونباس کے بارے میں ان کا موقف تھا کہ اس کا فیصلہ بالآخر یوکرینی عوام ہی کریں گے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ڈونباس کا علاقہ امن معاہدے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ روس اس پورے خطے پر قبضے کا خواہاں ہے جبکہ صدر پیوٹن یوکرین کو ان علاقوں سے دستبردار ہونے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
صدر زیلنسکی نے انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ نے ڈونباس کو ایک "آزاد اقتصادی زون” بنانے کی تجویز دی ہے۔ اس سے قبل زیلنسکی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ڈونباس سے اپنے فوجی دستے نکالنے پر مشروط طور پر آمادہ ہیں، بشرطیکہ روس بھی اپنی افواج نکال لے اور اس علاقے کو بین الاقوامی نگرانی میں ایک غیر فوجی علاقہ (ڈیمیلٹرائزڈ زون) قرار دیا جائے۔