سول ہسپتال جام غلام قادر گورنمنٹ ٹیچنگ ہسپتال حب مسائل سے دوچار
تحریر: ڈاکٹر ماجد علی بزنجو
ایمرجینسی ڈیپارٹمنٹ کو آج ٹراما سینٹر بننا چاہے تا مگر افسوس وہ آج صرف ایک ڈھانچے کا شکل اختیار کر رہا ہے. اتنے بڑے ٹیچنگ ہسپتال میں پچھلے کئی سالوں سے سینٹرل آکسیجن سسٹم نہیں اور نا ہی کوئی ایمرجینسی ڈرگ و انجکشن موجود ہے جو انسانی جان بچانے میں اہم کردار ادا کریں اب تو حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ درد کے انجکشن بھی مریضوں کو باہر سے لانے پڑتے ہیں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے اب سول ہسپتال حب بھی بچ نہ سکا ٹیچنگ ہسپتال کا درجہ دینا تو اب اسی اسپتال کے لیے وبالِ جان بن گیا ہے 24 گھنٹے لیبارٹری ایکسرے اور الٹراساؤنڈ کا غیر فعال ہونا ٹیچنگ ہسپتال کے لیے سوالیہ نشان بن گیا ہیں۔
ہسپتال کا دل کہاں جانے والا ڈپارٹمنٹ جیسے ایمرجینسی کہتے ہیں. جہاں لوگ بے یار او مددگار ہو کر یہاں آتا ہے. اس ڈیپارٹمنٹ کی اہمیت انسان کو تب پتہ چلتی ہے جب اس کا کوئی عزیز اسی ایمرجینسی بیڈ میں پڑھا ہو کر آپنے زندگی کی آخری سانسوں کو جام غلام قادر سول ہسپتال حب گنتے ہوئے ریفر فارم کے ساتھ کراچی کا سفر شروع کرتا ہے۔
حکومت بلوچستان کے جانب سے میڈیسن کا جو سالانہ کوٹہ ہے وہ انتہائی کم اور نہ ہونے کے برابر ہے دونوں اضلاع لوگ ضلع حب اور ضلع لسبیلہ کے علاوہ و دیگر اضلاع کے علاقوں سے بھی مریض بڑی تعداد میں جام غلام قادر سول ہسپتال کو رخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ادویات کم پڑجاتی اگر اس وقت صرف حب شہر کی بات کی جاۓ تو حب کی آبادی 7 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے حکومت بلوچستان کے جانب سے سالانہ جو 3 کروڑ روپے کا بجٹ دوائیوں کے لیے دیا جاتا ہے وہ بھی ایمرجینسی میں سہی معنوں میں خرچ نہیں کی جاتی ایمرجینسی میں نہ آکسیجن نہ ایمرجینسی ڈرگ و انجکشن موجود ہیں جس سے مریضوں کو علاج میں مدد مل سکے۔
آخر اس ڈیپارٹمنٹ کے زبوعالی کا اصل زمے دار کون ہے جس نے اس ڈیپارٹمنٹ کو 1996 سے اسی حال میں رکھا ہے جہاں آج ٹراما سنٹر بننا تھا لیکن افسوس اسی جگہ آج صرف حب کے عوام ایمرجینسی کنڈیشن میں آپنی فریاد لے کر اور ساتھ میں ایک ریفر فارم لیے کراچی جاتے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن لسبیلہ حب تمام حب کے عوام سول سوسائٹی مقامی صحافیوں لسبیلہ بار ایسوسی ایشن اور سیاست دانوں سے اپیل کرتی ہیں کہ آئیے اس مسئلے پر یک جا ہو کر اس کے لیے ایک عملی جدوجہد کریں۔