زرعی ترقیاتی بینک سے اربوں روپے کی فائلیں غائب، کروڑوں کا تیل ضائع — سرکاری اداروں میں بدانتظامی بے نقاب

0

اسلام آباد — جولائی کے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے ایک اہم اجلاس میں سامنے آنے والے انکشافات نے حکومتی اداروں کی کارکردگی، شفافیت اور نگرانی کے نظام پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ زراعت، توانائی اور مالیاتی شعبے سے وابستہ اداروں میں اربوں روپے کی بدانتظامی، غفلت اور ممکنہ کرپشن نے نہ صرف عوامی اعتماد کو متزلزل کیا بلکہ سرمایہ کاروں اور کاروباری حلقوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

زرعی ترقیاتی بینک میں سنگین مالی بے ضابطگیاں

اجلاس میں سب سے بڑا انکشاف زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ (ZTBL) سے متعلق سامنے آیا، جہاں 11 ارب 48 کروڑ روپے مالیت کی 11,400 قرض فائلیں بینک کے ریکارڈ سے غائب پائی گئیں۔ بینک کے صدر کے مطابق، درحقیقت 22 ہزار سے زائد فائلیں لاپتہ تھیں، جن میں سے کچھ کا سراغ لگا لیا گیا ہے جبکہ 5 ہزار فائلیں ماضی میں ایک سیاسی سانحے کے دوران جل چکی ہیں۔

یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ بینکنگ سیکٹر میں ریکارڈ مینجمنٹ اور ڈیجیٹلائزیشن کو کس حد تک نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ آڈٹ حکام نے مزید انکشاف کیا کہ بینک کے اندرونی افراد نے خود کو جعلی کسان ظاہر کر کے 1 ارب 25 کروڑ روپے کے قرض ہتھیا لیے، جو کہ مالی بدعنوانی کی ایک واضح مثال ہے۔

اگرچہ بینک نے 400 ملازمین کو ملازمت سے برطرف کیا اور 27 کروڑ روپے کی ریکوری بھی کی گئی، تاہم باقی رقم کا کوئی سراغ تاحال نہیں ملا۔ یہ سوال اب شدت اختیار کر رہا ہے کہ اگر اتنے بڑے پیمانے پر جعلسازی ممکن تھی تو اندرونی نگرانی اور احتساب کا نظام کہاں تھا؟

توانائی کے شعبے میں غفلت: کروڑوں کا تیل ضائع

اسی اجلاس میں پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے کوٹ ادو پارکو ڈپو سے 18 کروڑ روپے مالیت کا تیل ضائع ہونے کا واقعہ بھی زیر بحث آیا۔ حکام کے مطابق، ڈپو کا ایک ملازم والوز بند کیے بغیر وضو کے لیے چلا گیا، جس کی وجہ سے لاکھوں لیٹر تیل بہہ گیا۔

یہ محض غفلت نہیں بلکہ انتہائی درجے کی مجرمانہ لاپرواہی ہے، اور اس کے نتیجے میں قومی خزانے کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس واقعے پر صرف پانچ افراد کے خلاف کارروائی کی گئی اور 4 کروڑ 20 لاکھ روپے کی محدود ریکوری ہوئی، جو کہ اس واقعے کی سنگینی کے مقابلے میں ناکافی اقدام ہے۔

نظامی خامیاں اور پالیسی کا فقدان

یہ تمام سنگین واقعات جولائی میں رپورٹ ہوئے، مگر اگست کے وسط تک حکومت کی جانب سے کوئی واضح پالیسی ردعمل یا اصلاحاتی پلان منظر عام پر نہیں آیا۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ان اداروں میں شفافیت، احتساب اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ریکارڈ مینجمنٹ کو فوری بہتر نہ بنایا گیا، تو اس کا نتیجہ نہ صرف مزید مالی نقصانات کی صورت میں نکلے گا بلکہ مجموعی کاروباری فضا بھی متاثر ہو گی۔

سرمایہ کاروں اور کسانوں کا اعتماد خطرے میں

ان واقعات کے بعد زراعت اور توانائی سے جڑے کسان، سرمایہ کار اور چھوٹے کاروباری حضرات حکومتی اداروں پر اعتماد کھوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری اور سنجیدہ اصلاحات نہ کی گئیں تو نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان ہو گا بلکہ گورننس کا بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔

ملک میں شفاف، مضبوط اور قابلِ اعتماد نظامِ حکمرانی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.