sui northern 1

غذائی دہشتگردی انسانی جانوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ ، ہماری زمہ داری کیا اور ریاست کی زمہ داری کیا

تحریر سید مجتبی رضوان

0
Social Wallet protection 2

جب ہم غذائی دہشت گردی کے اثرات کو ذرا گہرائی سے دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف پیٹ کی بیماریوں، فوڈ پوائزننگ یا وقتی تکالیف تک محدود نہیں۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو پورے معاشرتی ڈھانچے میں سرایت کر چکا ہے۔ سب سے زیادہ اس کا نشانہ وہ طبقہ بنتا ہے جو پہلے ہی کمزور ہے، یعنی بچے، خواتین، مزدور اور بزرگ۔ بچے جو قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، ان کے جسم میں اگر ابتدا ہی سے زہریلے اجزا داخل ہونے لگیں تو ان کی جسمانی نشوونما ہی نہیں بلکہ ذہنی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ ناقص دودھ، جعلی جوسز، رنگ برنگی مٹھائیاں اور غیر معیاری اسنیکس بچوں کے لیے تفریح نہیں بلکہ خاموش بیماریوں کا ٹکٹ ہیں۔ اسکول جانے والا بچہ جب روزانہ ایسا زہر اپنے جسم میں اتارتا ہے تو وہ آگے چل کر ایک صحت مند شہری نہیں بلکہ کمزور، بیمار اور ریاست پر بوجھ بننے والا فرد بنتا ہے۔

sui northern 2

خواتین کے لیے غذائی دہشت گردی کا اثر اور بھی سنگین ہے کیونکہ ایک عورت صرف اپنی صحت کی ذمہ دار نہیں ہوتی بلکہ آنے والی نسل کی بنیاد بھی اسی کے جسم سے جڑی ہوتی ہے۔ ملاوٹ شدہ خوراک عورت کے ہارمونل نظام کو متاثر کرتی ہے، بانجھ پن میں اضافہ ہوتا ہے، حمل کے دوران پیچیدگیاں بڑھتی ہیں، کم وزن یا پیدائشی مسائل کے شکار بچے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب کسی ایک گھر کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری قوم کی آبادی، صحت اور معاشی مستقبل پر براہِ راست حملہ ہے۔ مزدور طبقہ جو سارا دن محنت کر کے سستی خوراک پر گزارا کرتا ہے، سب سے زیادہ اس زہر کی زد میں آتا ہے۔ اس کے پاس نہ مہنگی متبادل خوراک کی استطاعت ہوتی ہے اور نہ ہی بیماری کی صورت میں بہتر علاج تک رسائی۔ یوں غذائی دہشت گردی غربت کو مزید گہرا اور ناانصافی کو مزید مضبوط کر دیتی ہے۔

بزرگ افراد جن کا جسم پہلے ہی کمزور ہو چکا ہوتا ہے، ان کے لیے ملاوٹ شدہ خوراک سست زہر کی طرح کام کرتی ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر، دل اور گردوں کے مریض جب ایسی خوراک استعمال کرتے ہیں تو بیماری تیزی سے بگڑتی ہے، ادویات بے اثر ہونے لگتی ہیں اور زندگی کی مدت کم ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں بلکہ انسان کے ہاتھوں انسان پر ڈھایا جانے والا ظلم ہے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی انتہائی اہم ہے جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، اور وہ ہے صحت کا مجموعی نظام۔ غذائی دہشت گردی کے نتیجے میں بیماریاں بڑھتی ہیں تو اسپتالوں پر بوجھ بڑھتا ہے، ڈاکٹروں اور نرسوں پر دباؤ بڑھتا ہے، ادویات کی کھپت بڑھتی ہے اور ریاستی صحت بجٹ کا بڑا حصہ ان بیماریوں پر خرچ ہو جاتا ہے جو بنیادی طور پر روکی جا سکتی تھیں۔ یعنی ایک طرف ریاست خوراک کو محفوظ بنانے میں ناکام رہتی ہے اور دوسری طرف اسی ناکامی کا خمیازہ صحت کے شعبے میں اربوں روپے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا شیطانی چکر ہے جس میں سب نقصان میں ہوتے ہیں، سوائے ان چند لوگوں کے جو ملاوٹ کر کے وقتی منافع کما لیتے ہیں۔

اگر ہم مذہبی اور اخلاقی تناظر میں دیکھیں تو غذائی دہشت گردی محض ایک قانونی جرم نہیں بلکہ ایک سنگین اخلاقی اور دینی جرم بھی ہے۔ کسی کے رزق میں خیانت کرنا، کسی کو دھوکے سے نقصان پہنچانا، کسی کی جان یا صحت کو خطرے میں ڈالنا ہمارے معاشرتی اور دینی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم نے دین کو بھی رسومات تک محدود کر دیا ہے اور عملی زندگی میں اس کی روح کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اگر واقعی ہم خود کو ایک اخلاقی اور دینی معاشرہ سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ غذائی دہشت گردی کے خلاف خاموشی بھی ایک اخلاقی جرم ہے۔

ریاست کے آئینی تناظر میں بات کی جائے تو شہریوں کی زندگی کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر ریاست سرحدوں کی حفاظت پر اربوں خرچ کر سکتی ہے تو شہریوں کے پیٹ میں جانے والے زہر کو روکنا اس سے کم اہم نہیں۔ دشمن اگر سرحد پار سے حملہ کرے تو اسے جنگ کہا جاتا ہے، مگر اگر دشمن بازار کے اندر بیٹھ کر قوم کو بیمار کرے تو اسے بھی جنگ ہی سمجھنا چاہیے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس جنگ میں دشمن وردی میں نہیں بلکہ سفید کپڑوں میں، دکانوں، فیکٹریوں اور گوداموں میں چھپا ہوتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر اگر دیکھا جائے تو کئی ممالک نے اس مسئلے کو قومی سلامتی کے درجے پر رکھا ہے۔ وہاں فوڈ سیفٹی قوانین اس قدر سخت ہیں کہ ایک معمولی خلاف ورزی بھی کاروبار کے مکمل خاتمے اور بھاری سزاؤں کا باعث بنتی ہے۔ لیبلنگ، ٹریس ایبلٹی، لیبارٹری ٹیسٹنگ اور عوامی شکایات کا نظام اس قدر شفاف ہوتا ہے کہ صارف خود کو بے بس محسوس نہیں کرتا۔ سوال یہ نہیں کہ ہم یہ سب کیوں نہیں کر سکتے، سوال یہ ہے کہ ہم کرنا کیوں نہیں چاہتے۔ صلاحیت کی کمی نہیں، نیت کی کمی ہے۔

اگر موجودہ روش جاری رہی تو مستقبل کا منظرنامہ اور بھی خوفناک ہو سکتا ہے۔ بیمار، کمزور اور ذہنی طور پر متاثرہ نسل کسی بھی قوم کے لیے ترقی کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ معاشی ترقی، تعلیمی بہتری اور سائنسی پیش رفت سب اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب انسان صحت مند ہو۔ اگر جسم ہی بیمار ہو تو ذہن کیسے آزاد اور تخلیقی ہو سکتا ہے۔ غذائی دہشت گردی دراصل قوم کے مستقبل کو مفلوج کرنے کی ایک منظم سازش بھی بن سکتی ہے، چاہے وہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ۔

اب سوال یہ نہیں کہ مسئلہ موجود ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ ہم کیا کرنے کو تیار ہیں۔ کیا ہم صرف تحریریں پڑھ کر سر ہلا کر آگے بڑھ جائیں گے یا واقعی اپنی روزمرہ عادات بدلیں گے؟ کیا ہم دکاندار سے سوال کریں گے، رسید لیں گے، شکایت درج کروائیں گے، یا پھر ہمیشہ کی طرح یہ کہہ کر خاموش ہو جائیں گے کہ کچھ نہیں ہو سکتا؟ کیا ریاست وقتی مہمات سے آگے بڑھ کر ایک مستقل اور بے رحم نظام قائم کرے گی یا پھر ہر چند ماہ بعد چند تصویری کارروائیوں پر اکتفا کرے گی؟

یہ تحریر کسی ایک دن کے لیے نہیں، یہ ایک مستقل یاددہانی ہے کہ خوراک محض پیٹ بھرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ زندگی کا ایندھن ہے۔ اگر ایندھن ہی زہریلا ہو تو سفر کیسے محفوظ ہو سکتا ہے۔ غذائی دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل زندگی کے حق کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں نہ کوئی غیر متعلق ہے اور نہ کوئی محفوظ۔ جو آج خاموش ہے، وہ کل متاثر ہو سکتا ہے۔

آخر میں بس اتنا کہنا ہے کہ قومیں تب بیدار ہوتی ہیں جب وہ یہ مان لیتی ہیں کہ مسئلہ واقعی ان کا اپنا ہے۔ جب تک ہم غذائی دہشت گردی کو کسی اور کا جرم اور کسی اور کا مسئلہ سمجھتے رہیں گے، تب تک یہ زہر پھیلتا رہے گا۔ مگر جس دن ہم نے یہ مان لیا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہماری ریاست کی ذمہ داری ہے، اور ہماری آنے والی نسلوں کا سوال ہے، اسی دن سے تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا۔

یہ تحریر کسی اختتام پر نہیں بلکہ ایک عہد پر ختم ہونی چاہیے۔ عہد اس بات کا کہ ہم لقمہ اٹھاتے وقت بھی سوچیں گے، بیچتے وقت بھی ڈریں گے، خاموش رہنے کے بجائے بولیں گے، اور انسانی جان کو منافع سے اوپر رکھیں گے۔ اگر ہم نے یہ عہد کر لیا تو شاید آنے والا وقت ہمیں معاف کر دے، ورنہ تاریخ خاموش قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.