جمہوریت صرف ایک نظامِ حکومت نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے، جس میں شہریوں کی شعوری شرکت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی قوم کا نوجوان طبقہ وہ توانائی ہے جو جمہوریت کو نہ صرف طاقت فراہم کرتا ہے بلکہ اسے بدعنوانی، آمریت، اور جمود سے بچاتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر یہ طبقہ بیدار ہو جائے تو پاکستان میں نہ صرف مضبوط جمہوریت قائم ہو سکتی ہے بلکہ ریاستی اداروں اور سیاسی نظام میں انقلابی تبدیلی ممکن ہے۔نوجوان آزاد سوچ، تبدیلی، اور انصاف کے خواہاں ہوتے ہیں
جمود، کرپشن، اور خاندانی سیاست سے بیزار ہوتے ہیں ان کے اندر جذبہ، وقت، اور سیکھنے کا حوصلہ ہوتا ہے۔جمہوریت کو اگر تازگی، شفافیت اور قوت درکار ہو تو وہ صرف نوجوان طبقے سے حاصل ہو سکتی ہے۔
تعلیم یافتہ نسل، سوشل میڈیا سے جڑی ہوئی ہے جس وجہ سے سیاسی شعور میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ نوجوان کرپشن کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کرگئی ۔قومی سطح پر مثبت تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں ۔ تاہم کچھ چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جن میں سر فہرست مضبوط اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت شامل ہیں ۔ کیونکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ملک میں تبدیلی کی خواہاں نہیں اور ملک پر مسلط دو خاندانوں کو سپورٹ کرتی چلی آرہی ہے ۔ سیاسی مایوسی اور بداعتمادی پھیلائی جاتی ہے
تعلیم اور روزگار کے مسائل کا سامنا نوجوانوں کو سب سے زیادہ کرنا پڑتا ہے ۔ کیونکہ نوجوانوں کے لیے تعلیم سے فراغت کے بعد نوکری حاصل کرنا نہایت مشکل ہے کیونکہ کرپشن اور رشوت عام ہیں ۔منفی پروپیگنڈہ، فرقہ واریت اور تعصب کو سرپرستی حاصل ہے ۔ ملک بھر میں اس تعصب کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ملوث ہیں ۔. طلبہ یونینز پر پابندیاں اور سیاسی شرکت کی راہیں مسدود ہوچکی ہے ۔ کیونکہ طلبہ سیاست کو پسند نہیں کیا جاتا اور اس حوالے سے منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔
تحریک پاکستان میں طلبہ کا کردار ناقابلِ فراموش ہے1968 کی عوامی تحریک جنرل ایوب کے خلاف ،وکلا تحریک (2007-2009) میں نوجوانوں کی سرگرم شرکت
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی نئی نسل کی سیاست اور تبدیلی کے نعرے کی بدولت پہلی بار لاکھوں نوجوان ووٹرز متحرک ہوئے ہیں جوکہ ایک نیک شگون ہے ۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کو ختم کرنے کے لیے کوئی حربہ نہیں چھوڑا ۔ لیکن دوسری طرف نوجوان خون اس پارٹی کو زندہ رکھنے کے لیے آکسیجن فراہم کررہی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں میں سیاسی شعور پیدا کریں صرف ووٹ دینا کافی نہیں، سیاسی جماعتوں کی پالیسی، ماضی اور وعدوں کا تجزیہ کریں سیاسی لیڈر کو مسیحا سمجھنے کے بجائے اس سے سوال کریں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ دینے سے نوجوانوں کو مایوسی سے نکالا جاسکتا ہے ۔طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ طلبہ یونینز جمہوریت کی نرسری ہوتی ہیں دلیل، مباحثہ، اختلافِ رائے کا کلچر یہیں سے پیدا ہوتا ہے
سوشل میڈیا پر بامقصد مکالمہ کا انعقاد ضروری ہے فیک نیوز، پروپیگنڈہ اور نفرت انگیزی سے بچیں اور علمی، اخلاقی اور دلیل پر مبنی گفتگو کو فروغ دیں اس سے سیاسی جماعتوں کے اندر تبدیلی کا آغاز ہوگا ۔ یاد رکھیں کہ یہ آسان کام نہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں پر قابض مافیا کبھی باآسانی اس عمل کو نہیں ہونے دیتی ہیں ۔ ہزاروں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہے ۔ تحریک انصاف نے پہلی بار انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا تو کافی حد تک تبدیلی کا عمل شروع ہوا لیکن بعد میں پارٹی کے اندر قابض مافیا نے مخالفت کی اور آج تک دوبارہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد نہ ہوسکا ۔جماعتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اندرونی جمہوریت، شفافیت، اور میرٹ کو اپنائیں
شخصیت پرستی کو مسترد کریں نوجوانوں کے بغیر جمہوریت نامکمل ہےاگر نوجوان سیاست سے دور رہیں گے، تو میدان کرپٹ، مفاد پرست اور غیر نمائندہ طبقے کے لیے خالی چھوڑ دیں گے نوجوان صرف احتجاج کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ سوچ، پالیسی اور عمل میں شریک ہوں
ان کا فرض ہے کہ وہ ایک ایسا جمہوری نظام قائم کریں جو آنے والی نسلوں کے لیے قابلِ فخر ہو
نوجوان وہ قوت ہیں جو جمہوریت میں نئی روح پھونک سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوریت بار بار کمزور ہوئی، وہاں نوجوانوں کو صرف ناظر یا تماشائی نہیں بلکہ رہنما، ناقد، اور محافظ بننا ہو گا۔ جمہوریت کی مضبوطی صرف نظام کی تبدیلی سے نہیں بلکہ نسلِ نو کے شعور، عمل اور اخلاص سے ممکن ہے۔