ریڈیو پاکستان پشاور کی تاریخ ایسے باصلاحیت افراد سے مزین ہے جنہوں نے اپنی محنت، تخلیقی سوچ اور فنی لگن سے ادارے کو نئی شناخت بخشی۔ انہی نمایاں ناموں میں اظہر عثمان داودزئی ایک ہونہار اور ہمہ جہت براڈکاسٹر ہیں جنہوں نے فنی دنیا کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔
اظہر عثمان داودزئی ۴ اپریل ۱۹۸۱ کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم جی ایچ ایس اسکول نمبر ۱ پشاور سے حاصل کی اور میٹرک پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج پشاور سے ایف اے (۱۹۹۹) کیا، اسلامیہ کالج پشاور سے بی اے (۲۰۰۱) مکمل کی، اور اعلیٰ تعلیم کے لیے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے (۲۰۰۳) حاصل کی۔
ابتدائی زندگی میں اظہر عثمان کرکٹ کے میدان کے درخشاں ستارے تھے۔ وہ ایک شاندار آل راؤنڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ 1998 میں گورنمنٹ کالج کے سیکنڈ ایئر کے کیپٹن کے طور پر بورڈ اف انٹرمیڈیٹ ٹورنامنٹ جیتا، 2001 میں اسلامیہ کالج کے چوتھے سال کے کیپٹن کے طور پر پشاور یونیورسٹی ٹورنامنٹ میں فتح حاصل کی، اور 2002 میں کھیل کے اہم مقابلوں میں رنر اپ رہے۔ انہوں نے کرکٹ، کبڈی اور ہینڈ بال میں اسلامیہ کالج کی نمائندگی کی، 1999 میں انٹر بورڈ کرکٹ ٹیم کے ممبر رہے، اور بعد میں پاکستان یونیورسٹی کرکٹ ٹیم اور انڈر 16 تا 19 گریڈ دو کیمپ میں شامل رہے۔ اپ نے ہی سی بی کا لیول -1. کوچنک بھی پاس کیا ہواہپے ان کی یہ کھیل کی قابلیت اور قائدانہ صلاحیتیں آج بھی ان کے فنی اور قائدانہ رویے میں جھلکتی ہیں۔
اظہر عثمان نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان پشاور سے بطور پروڈیوسر کیا۔ ان کی تخلیقی صلاحیت، تحقیقی رجحان اور پیشہ ورانہ رویے نے انہیں جلد ہی نمایاں مقام دلایا۔ کچھ ہی عرصے میں وہ سینیئر پروڈیوسر کے عہدے تک پہنچے۔
اظہر عثمان داودزئی کافی عرصے تک شعبۂ پیشکش اور آؤٹ ڈور براڈکاسٹ (Outdoor Broadcast) کے ساتھ بھی وابستہ رہے، جہاں وہ براہِ راست موقع پر جا کر کوریج کرتے اور رپورٹس تیار کرتے تھے۔ ان کی پروڈکشن نہ صرف تکنیکی لحاظ سے معیاری ہوتی تھی بلکہ مواد کے اعتبار سے بھی ہمیشہ منفرد اور پراثر رہی۔
اظہر عثمان داودزئی ایک ہنس مکھ، آزادمنش اور ہر وقت ہشاش بشاش رہنے والا نوجوان ہے، جس کی یہ خصوصیات ساتھیوں اور سامعین دونوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتی ہیں۔
اپنے فنی سفر کے دوران انہوں نے کئی معروف اور مقبول پروگرام پیش کیے جن میں صداے خیبر کرنٹ افیئرز شامل ہے، جو صوبائی و قومی امور پر مبنی حالاتِ حاضرہ کا پروگرام ہے۔ انہوں نے اسپورٹس میگزین بھی پیش کیا، جس میں کھیلوں کی دنیا کے نمایاں واقعات، تبصرے اور تجزیے شامل ہوتے ہیں۔ پریس کلب کے ذریعے انہوں نے صحافت اور ابلاغ کے شعبے سے جڑے موضوعات پر روشنی ڈالی، جبکہ ہندکو پروگرام پھلواری زبان و ثقافت کے فروغ کے لیے بہت مقبول رہا۔
اظہر عثمان کے پروگرام شہرنامہ میں پشاور شہر کے مسائل، ثقافتی رنگ اور سماجی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا، اور ریڈیو رپورٹس میں ترقیاتی منصوبوں اور عوامی خدمت کے موضوعات پیش کیے گئے۔ نوجوانوں کے لیے پشتو زبان میں خصوصی پروگرام زلمی کول پیش کیا گیا، جس نے نئی نسل میں ریڈیو کی دلچسپی کو دوبارہ زندہ کیا۔
ان کے پروگرامز کی خاص بات ان کی تازگی، جامعیت اور عوامی دلچسپی ہے۔ وہ موضوعات کے انتخاب سے لے کر پیشکش کے انداز تک ہر مرحلے میں سنجیدگی اور فنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اظہر عثمان کے والد گرامی مرحوم عثمان داودزئی کی زیر سرپرستی میں جب کہوار مجلس کا نوجوان کمپیئر تھا، تو میں بھی کچھ عرصے کے لیے ان کے ساتھ رہا۔ وہ ایک نہایت شفیق انسان تھے، اور اسی ناطے اظہر مجھے بڑے بھائی کی حیثیت دیتے ہیں۔ کرکٹ اور ریڈیو پاکستان ہم دونوں کی مشترکہ میراث ہیں، اس لیے وہ مجھ پر بات چھوٹے بھائی کی طرح جتاتے اور لاڈ کرتے، اور اظہر کی یہ شفیقانہ ادا مجھے بے حد عزیز ہے۔ اوپر سے وہ میرا بیچ فیلو بھی ہے اور دوست بھی، لیکن چھوٹے ہونے کے ناطے کبھی بھی وہ حد پار نہیں کرتے جو اکثر دو دوست گفتگو میں کر بیٹھتے ہیں، اور ایک یہ اس کی خاندانی اقدار کی نشانی بھی ہے۔
اظہر عثمان داودزئی نے پشاور کے علاوہ ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں بھی خدمات انجام دیں۔ بعدازاں وہ 2016 میں ڈیپوٹیشن پر پہلے ہاوسنگ اینڈ ورکس میی اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور پھر 2023 میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر پپلک ریلیشن تعینات ہوئے، اور خدمات انجام دیے رہے ہے۔
اظہر عثمان آجکل ڈیپوٹیشن پر ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اکثر فون کے ذریعے رابطہ رکھتے ہیں اور ریڈیو کے حالات سے باخبر رہتے ہیں، کیونکہ ریڈیو پاکستان اظہر کے لیے بہت عزیز ہے۔
اظہر عثمان نہ صرف ایک تجربہ کار براڈکاسٹر ہیں بلکہ ایک شائستہ منتظم، محنتی ٹیم لیڈر اور خوش اخلاق انسان کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے قریبی ساتھی انہیں ایک ایسے رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں جو کام میں معیار، نظم و ضبط اور خلوص کو ترجیح دیتے ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے سنہری ورثے میں ان کا نام اس بات کی علامت ہے کہ سچا فنکار کسی ایک میدان تک محدود نہیں رہتا۔ کرکٹ کے میدان سے مائیک کی دنیا تک، اظہر عثمان داودزئی کی کہانی محنت، لگن اور خلوص کی خوبصورت مثال ہے۔