آج کے روز مرلی نے اپنے آخری ٹیسٹ کے آخری دن اپنی 800 وکٹس پوری کرکے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی!
تحریر بشکریہ ، My Photography
آج کے روز مرلی نے اپنے آخری ٹیسٹ کے آخری دن اپنی 800 وکٹس پوری کرکے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی! ایسے عظیم کھلاڑی کی شان میں پچھلے سال انھی دنوں تین پوسٹس لکھی تھیں وہ دوبارہ پیشِ خدمت ہیں؛

مرلی کتنا عظیم تھا !!
آج تک سولہ سترہ بار ایسا ہوا ہوگا کہ کسی گیند باز نے ایک ہی سال میں ستر یا اس سے زائد ٹیسٹ وکٹس لیے ہوں، پہلے ان گیندبازوں اور ان کی وکٹس کی تعداد کی فہرست دیکھیے ؛
ایک سال میں سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹس لینے والے بولرز؛
وارن 96 وکٹس
مرلی 90 وکٹس
للی 85 وکٹس
ڈونلڈ 80 وکٹس
مرلی 80 وکٹس
گارنر 79 وکٹس
مرلی 75 وکٹس
کپل 75 وکٹس
اسٹین 74 وکٹس (باقیوں سے کم اوورز کیے)
کپل دیو 74 وکٹس
کمبلے 74 وکٹس
مکلم مارشل 73 وکٹس
وارن 72 وکٹس
اشون 72 وکٹس
میکنزی 71 وکٹس
شین وارن 70 وکٹس
شین وارن 70 وکٹس
ایک سال میں سب سے زیادہ وکٹس لینے کا اعزاز لیجنڈری لیگ اسپنر شین وارن کے پاس ہے جنھوں نے سن 2005 میں 96 وکٹس لے لی تھیں۔ ایک ہی سال میں سو وکٹس لینے والے والے پہلے تاریخی گیند باز وہ بنتے بنتے رہ گئے تھے۔
اس سال انھوں نے 15 ٹیسٹ میچز کھیلے تھے، (اُس وقت بھی کسی ایشین ٹیم کے لیے اتنے ٹیسٹ میچز کھیلنا ناممکن جیسا تھا)، ان 96 وکٹس کے لیے وارن کو اس سال 722 اوورز کرنے پڑے تھے۔ بولنگ ایوریج 22 کی رہی، دو بار میچ میں دس وکٹس لیں تو چھے بار ایک اننگز میں پانچ وکٹس لیں۔
دوسری طرف مرلی تھا، جو شاید سال میں سو وکٹس کا ہندسہ عبور کر جاتا اگر اس کو پندرہ پندرہ ٹیسٹ کھیلنے کو ملتے جس کا منہ بولتا ثبوت سن 2000, 2001 اور 2006 میں دکھائی گئی کارکردگی ہے جہاں انھوں نے بالترتیب 75، 80، اور 90 وکٹس لیں، مرلی کے پاس سو وکٹس نہ لینے کی فقط یہی ایک وجہ سمجھ آتی ہے کہ اس کو باقی ایشینز ٹیمز کی طرح میچز بھی کم کھیلنے کو ملے۔
اوپر مذکورہ تین سال میں اس کی کارکردگی ایسی ہے کہ کئی گیند باز پورے کیریر میں ویسا نہ کر پائے جو یہ فقط تین سال میں کرگیا، اسپیشلی ان میں دو سال تو لگاتار تھے، پے در پے دو سالوں میں ایسی کارکردگی کی دوسری مثال کہیں نہیں ملتی۔ 1993/94 دونوں سال شین وارن کے لیے بھی کمال کے تھے مگر مرلی اپنی مثال آپ تھا، مرلی کے جن دو سالوں کا ذکر آگے ہونے جارہا ہے یہی وہ دور تھا جب کرکٹ گیند بازوں کے بجائے بلے بازوں کی ہوچکی تھی رنز اور سینچریز کے رکارڈ بن رہے تھے، عظیم بلے باز سچن، پونٹنگ، لارا جیسے کئی بلے باز اپنے عروج پر تھے۔
خیر نئی صدی شروع ہوتی ہے سن 2000 شروع ہوتا ہے اور ساتھ ہی مرلی کا جادو شروع ہوتا ہے؛ مرلی اس سال دس ٹیسٹس کھیلے، 75 وکٹس لیں اور اس وقت اتنی زیادہ وکٹس والے وہ پہلے اسپنر گیند باز تھے، اس سے پہلے 75 سے زیادہ وکٹس صرف للی ، ڈونلڈ اور گارنر ہی لیے ہوے تھے، پر وہ وقت مرلی کا تھا، اس سال اس نے تین بار دس وکٹس لی تھیں، اور تاریخ 88 سال بعد یہ ہوتا ہوا دیکھ رہی تھی کہ کسی گیند باز نے ایک ہی سال میں تین بار میچ میں دس وکٹس لی ہوں۔
مرلی اتنے میں خوش نہیں تھا، اگلا سال 2001 آتا ہے جہاں وہ 12 ٹیسٹ میچز کھیل کر 80 وکٹس لے جاتا ہے، ڈونلڈ اور للی کے بعد تاریخ کے اس وقت فقط تیسرے گیند باز تھے جنھوں نے 80 وکٹس لی تھیں، اُس برس اس نے پچھلے برس سے زیادہ چار بار دس وکٹس لے کر تاریخ میں اپنا نام سب سے زیادہ اوپر لکھوادیا کہ ایسا گیند باز نہ بعد میں آیا نہ پہلے آیا جو سال میں چار بار 10 وکٹس لے سکے۔
پھر سال 2005 آتا ہے وارن 15 میچز کھیل کر 96 وکٹس لے جاتا ہے، جیسے مرلی کا منہ چڑا رہا ہو، اور مرلی واقعی غضب ناک ہو بھی جاتا ہے کہ اس کے اگلے ہی سال 2006 میں مرلی وہی 2000 اور 2001 والی تباہی لے آتا ہے،
شین وارن نے 2005 میں پندرہ میچز کی تیس اننگز میں 96 وکٹس لی تھیں، جب کہ 2006 میں مرلی نے گیارہ میچز کی 21 اننگز میں 90 وکٹس لی تھیں، وارن سے 9 اننگز کم بولنگ کی تھی، وارن نے 4300 سے زائد اوورز کیے تھے جب کہ مرلی نے 3500 پلس اوورز کیے تھے جو کہ وارن سے 800 سے 900 اوورز کم ہو جاتے ہیں۔
اس سال مرلی کی بولنگ ایوریج 17 سے بھی کم تھی، اتنی کم اوسط پچھلے سو برس سے بھی زائد عرصے میں کسی کی نہ رہی تھی۔
اس سال مرلی نے وہ رکارڈ بنایا جو اس کے پاس پہلے ہی تھا، ایک ہی سال میں دس وکٹس لینے کا، یہ کارنامہ اس نے پانچ بار کر دکھایا۔ غضب خدا کا ! 150 میچز کھیلنے والوں کے کیریر ختم ہو جاتے ہیں وہ اتنی بار دس وکٹس نہیں لے پاتے جتنی بار مرلی یہ کام کرگیا۔
اب دیکھیے ایک سال میں سب سے زیادہ دس وکٹس لینے والے بولرز کی فہرست جو تقریبًا مرلی سے شروع کر مرلی پہ ختم ہوتی ہے؛
مرلی 2006 میں پانچ بار
مرلی 2001 میں چار بار
مرلی 2000 میں تین بار
اشون 2012 میں تین بار
اس کے علاوہ ایک آدھ گیند باز اور مل بھی جائے گا جو تین بار دس وکٹس لے گیا ہو مگر پچھلے ایک سو دس/بارہ برس میں کم از کم ایسا نہیں ہوا۔
اچھا سن 2001 میں جو چار بار وکٹس لی ہیں، وہ لگاتار چار میچز میں ہی تھیں، ایسے ہی لگاتار چار میچز میں دس وکٹس اس نے 2006 میں بھی لی تھیں۔ پیچھے سو برس چلیں جائیں ایسا گیند باز ڈھونڈھ لائیں جو تین میچز میں لگاتار دس وکٹس لے، ڈھونڈھیے مگر ملے گا نہیں، یہاں تو مرلی چار چار میچز ایسے کھیل گیا وہ بھی یک نہ شُد دو شُد !
ایسی کوئی ٹیم نے نہیں جس کے خلاف اس نے پانچ بار اننگز میں پانچ وکٹس نہ لی ہوں، اور ایسی کوئی ٹیم نہیں جس کے خلاف کم از ایک بار دس وکٹس میچ میں نہ لی ہوں۔ اور سوائے آسٹریلیا کے ایسا کوئی ملک نہیں جہاں اس نے پانچ وکٹس نہ لی ہوں، ہر بڑے کھلاڑی کے کیریر میں ایک آدھ کمی تو رہ ہی جاتی ہے تو مرلی کے ساتھ یہی ہوا کہ پانچ میچز کھیل کر آسٹریلیا میں ایک بھی اننگز میں پانچ وکٹس نہ لے پائے، وہی آسٹریلیا جب سری لنکا کھیلنے جاتا تو مرلی نے خوب وکٹوں پہ ہاتھ صاف کیے۔
یہی شین وارن کے ساتھ ہوا، وارن ویسٹ انڈیز میں سات میچز کھیل آئے مگر کسی ایک اننگز میں بھی پانچ وکٹس نہ لے سکے، وارن کا ایک ہی میچ زمبابوے میں بھی ایسے گیا تو وارن کے نام دو ایسے ممالک آجاتے ہیں۔
وارن نے کیریر میں دس بار دس وکٹس لی تھیں، چار بار آسٹریلیا میں، تین بار انگلینڈ میں اور تین بار سری لنکا میں۔
دوسری طرف مرلی نے 22 بار دس وکٹس لی ہیں، جس میں سے 15 تو سری لنکا ہی میں ہیں، باقی انگلینڈ میں 3، افریقہ میں ایک، نیوزیلینڈ میں ایک، پاکستان میں ایک اور بنگلادیش میں ایک۔
باقی مرلی کی 67 بار پانچ وکٹس کا ذکر شروع کریں تو شاید پوری کتاب لکھنی پڑ جائے گی ! فقط تصور کرلیں ایک گیند باز 67 بار پانچ وکٹس لیتے ہوے۔ بور بھی نہیں ہوتا مرلی ایسے تو شاید۔
مرلی نے 133 ٹیسٹس میں سے فقط 36 میچز ایشیا سے باہر کھیلے تھے، اور ان 36 میچز میں 188 وکٹس بتارہی ہیں کہ وہ ایشیا سے باہر بھی کتنا کامیاب تھا سوائے آسٹریلیا کے، اگر وہ پانچ ناکام میچز آسٹریلیا والے نکال دیے جائیں تو پیچھے مرلی کی 176 وکٹس 31 میچز میں بن جاتی ہیں،
ان باقی 31 میچز میں 15 بار پانچ وکٹس لیں اور پانچ بار دس وکٹس لیں۔ صرف ویسٹ انڈیز ایسا خطہ ہے جہاں وہ پانچ وکٹس تو اننگز میں لے گیا مگر دس وکٹس مرلی کو ویسٹ انڈیز میں نہ مل سکیں۔
ویسٹ انڈیز وہی ملک ہے جہاں وارن بھی اپنے سات میچز میں ناکام ہوچکا ہے۔
یہ وارن اور مرلی کی عظمت تھی! ان کے عروج کا ان کے کمال کا ذکر تھا ! ہاں وارن کا ذکر کم مرلی کا زیادہ تھا، پر اگلی کسی بار وارن کو چانس دیا جائے گا، مقصد موازنہ قطعی نہیں دونوں عظیم ہیں، دونوں کے پاس اپنی اپنی کامیابیوں کی فہرست ہے۔ اصل مقصد بتانا یہ ہے کہ جب آپ کا کیریر لمبا ہو پانچ چھے سو وکٹس کا تمغہ سینے پر سجا ہو تو پھر آئندہ نسل کو بتانے کے لیے ایسے کئی رکارڈز کی لمبی فہرست بھی ہو جو چیخ چیخ کر بتائے کہ آپ کرکٹ کی تاریخ کے دفاتر میں کتنے عظیم تھے!!!!
مرلی کی عظمت! قسط نمبر 2
اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اکیسویں صدی کی شروعات مرلی دھرن سے ہوی تھی، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی پر مرلی نے راج کیا تھا۔
سن 2000 سے 2010 تک اگر بات کی جائے تو اعدادوشمار اس بات کو تقویت بخشتے ہیں کہ اس سے پہلے والی اور بعد والی دہائیوں کے مقابلے میں ان دس سالوں میں بلے بازی کافی آسان رہی، خوب رنز بنتے رہے، سینچری تو جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ پھر تاریخ کی عظیم ترین 400 رنز کی باری اسی دور میں تخلیق ہوتی ہے تو سنگا مہیلا نے 624 رنز کی حیرت انگیز پارٹنرشپ کو اسی عہد میں جنم دیا تھا، ونڈے کرکٹ میں جہاں 250 چیز کرنے پر جان پر بن آتی تھی وہیں افریقہ آسٹریلیا کے خلاف 438 چیز کر رہا تھا اور جوہانسبرگ پر فلک نے پہلی اور اب تک آخری بار 400 چیز ہوتے دیکھا، ٹھیک اس کے تین برس بعد سری لنکا 414 رنز کے ٹارگیٹ کے پیچھے انڈیا کے خلاف فقط تین رنز سے پیچھے رہ گیا، اگر سنگاکارا اس دن مزید تھوڑی دیر کھڑا رہا ہوتا تو ایک عظیم سینچری بنتے نظر آتی اور ایک بہت بڑا ٹارگیٹ پھر سے چیز ہوتے نظر آتا۔ دوسری طرف ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز مائٹی آسٹریلیا کے خلاف 418 رنز کا رکارڈ چیز اچیو کرتے نظر آئی، یہ چند باتیں تو بسبیلِ تذکرہ ہیں ورنہ تو اعدادوشمار اس کے سوا ایک الگ موضوع ہیں کہ 2000 والی دہائی بلے بازی کے لیے کیسے آسان تھی اس کے لیے الگ بحث کی ضرورت ہوگی ۔ اس بات سے اندازہ لگالیں کہ ٹیسٹ کرکٹ کی ایک اننگز میں اب تک 750 یا زائد کا اسکور دس بار بن چکا ہے، جس میں سے چار بار تو اسی دہائی میں بنے ہیں، باقی کسی دہائی میں دو بار بھی ساڑھے سات سو کا ٹوٹل نہیں بنا، اس کا مطلب یہی ہے کہ ساڑھے سات سو کا ٹوٹل دیکھنے کے لیے دس برس انتظار کرنا پڑتا ہے مگر یہاں ایک ہی دہائی میں چار چار بار بن گیا، بات اسی حد تک کافی نہیں ، اسی دہائی میں 749 اور 747 کے جو ٹوٹل ویسٹ انڈیز نے بنائے تھے وہ اس کے سوا ہیں۔ محمد یوسف نے ایک سال میں جو رنز کا پہاڑ کھڑا کیا تھا وہ اسی دہائی کا قصہ ہے پھر اسی سال مرلی نے گیند کے ساتھ جو قہر ڈھایا تھا وہ پچھلی قسط میں لکھ چکا ہوں۔
جب بلے بازی کے لیے ایسے بہترین حالات میسر ہوں تو کسی بھی گیند باز کا کیریر ختم ہوتے دیر نہیں لگتی، ایسے میں مرلی کی اس دہائی میں انٹری کسی فلمی انداز میں ہوتی ہے اور دہائی ختم ختم ہوتے فلمی انداز میں ہی کسی ہیرو کی طرح فتح یاب ہوکر ‘دی اینڈ’ بھی ہوتا ہے۔ دہائی کے شروعاتی دو سال 2000 اور 2001 اور سال 2006 کا قصہ پچھلی قسط میں گزر چکا، ادھر اس مرلی کی اس کارکردگی پہ نظر کرتے ہیں جو اس نے پوری دہائی میں دکھائی تھی؛
جنوری 2000 سے دسمبر 2009 تک مرلی نے 84 ٹیسٹس کی 154 اننگز میں 565 وکٹس لی تھیں، جن کو اگر 10 پر تقسیم کیا جائے تو سالانہ ان کے نام 56 وکٹس بنتی ہیں، ان میں جو 49 بار ایک اننگز میں پانچ وکٹس لی ہیں وہ تو بس اب ایک خواب ہی لگتا ہے۔
اس کے بعد کسی دہائی میں سب سے زیادہ وکٹس کسی نے لی ہیں تو وہ جیمز اینڈرسن ہے جس نے 2010 والی دہائی میں 106 ٹیسٹس کی 200 اننگز میں 429 وکٹس لی ہیں، جمی مرلی سے 46 اننگز مزید کھیل کر بھی 136 وکٹس پیچھے رہا، 136 وکٹس کے لیے تو اب کھلاڑیوں کو پانچ پانچ سال لگ جاتے ہیں۔ مرلی اکیلا تھا جبکہ اینڈرسن کے ساتھ براڈ تھا جس نے 2010 والی دہائی میں ہی 400 سے زائد وکٹس لی تھی۔
کہاں 154 اننگز میں مرلی کی 49 بار پانچ وکٹس اور کہاں جمی کی 200 اننگز میں فقط 20 بار پانچ وکٹس ! کوئی مقابلہ ہی نہیں، بلندی اور عظمت جیسے الفاظ ادھر آکر صحیح سمجھ آتے ہیں۔
چلیں پھر بات کا رخ تھوڑا موڑتے ہیں؛
جب مرلی نے اس دہائی میں اتنی وکٹس لیں تو اس کا امپیکٹ کیا تھا؟ ٹیم کو کس لیول پہ پہنچایا ؟ میچ وننگ تھی وکٹس یا بس مرلی کا رکارڈ بک ہی بھرا جارہا تھا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مرلی کی بولنگ نے جو اپنی ٹیم کو اس دہائی میں عروج بخشا وہ اس کے جانے بعد اور نہ اس سے پہلے اس کی ٹیم کو کبھی ملا اور نہ ہی آئندہ کئی دہائیوں تک سری لنکن ٹیم اب اس لیول تک ٹیسٹ کرکٹ میں آ سکتی ہے۔
اس بات کا خلاصہ یُوں کرتے ہیں؛
اس دہائی میں آسٹریلیا کا جو عروج تھا وہ تو بے مثال تھا، اس کے بعد جو بیسٹ ٹیم تھی وہ افریقہ تھی جس کی قیادت پہلے تین سال شان پولاک پھر گریم سمتھ جیسا تاریخ ساز کپتان کرتا رہا، جس میں جیک کیلس تھا، مکھایا نٹینی تھا، دہائی ختم ہوتے ہوتے اسٹین اپنا عروج بھی دِکھا چکا تھا، ہر حوالے سے ایک بہترین ٹیم تھی۔ ان دو ٹیمز کے بعد اگر کوئی ٹیم آتی ہے تو وہ مرلی کی ٹیم سری لنکا ہی تھی، اس دہائی میں انڈیا پاکستان انگلینڈ نیوزیلینڈ سے کہیں آگے تھی سری لنکا، بلے بازی میں تو سنگا مہیلا اور دیگر چل رہے تھے مگر ٹیم کی بولنگ کا سہرا دس کے دس سال اکیلے مرلی کے سر رہا اور یہ ذمے داری اس نے 565 وکٹس لے کر بخوبی نبھائی وہ بھی 49 فائفرز کے ساتھ۔
اس دہائی میں ٹاپ پر آسٹریلیا رہی جس نے ان دس سالوں میں 115 ٹیسٹس کھیل کر 79 جیتے تھے۔ لگ بھگ 69 فیصد میچز جیتے! اب ایسا عروج بھلا کون دیکھ سکتا تھا سوائے آسٹریلیا کی اس ٹیم کے،
اس کے بعد افریقہ ہے جس نے ان دس برسوں میں 108 میں سے 53 ٹیسٹس جیتے جو کہ پورا پچاس فیصد بھی نہیں۔
پھر سری لنکا ہے جس نے 96 میں سے 44 جیتے، جو کہ 45 فیصد بنتا ہے۔
چوتھا انگلینڈ ہے جس نے اس دہائی میں 129 میں سے 55 میچز جیتے جو کہ 42 فیصد بنتے ہیں، باقی انڈیا پاکستان نیوزیلینڈ ویسٹ انڈیز تو چالیس فیصد بھی اپنے میچز نہیں جیت پائے، انڈیا 38 فی صد تو پاکستان 36 فیصد نیوزی لینڈ 28 فیصد تو ویسٹ انڈیز 26 فیصد میچز ہی جیت پائیں۔
اگر سری لنکن ٹیم میں کوئی ایک آدھ اچھا دوسرا گیند باز اس بیچ چھے سات برسوں تک آجاتا اور تین چار برس عروج تک کھیل جاتا تو ہوسکتا ہے دس پندرہ میچز سری لنکا مزید بھی جیت سکتا تھا، پر مرلی نے پھر بھی تنِ تنہا وہ کر دکھایا جس کی تعریف میں لفظ کم پڑ جاتے ہیں۔ اس عرصے میں چمندا واس 247 وکٹس کے ساتھ نظر آتا ہے بس پیچھے دس سالوں میں کوئی سری لنکن بولر 100 وکٹس بھی نہ لے سکا۔
ان دس سالوں میں مرلی کی کارکردگی کچھ یوں تھی؛
2000 میں 75 وکٹس
2001 میں 80 وکٹس
2002 میں 55 وکٹس
2003 میں 48 وکٹس
2004 میں 47 وکٹس
2005 میں 52 وکٹس
2006 میں 90 وکٹس
2007 میں 49 وکٹس
2008 میں 43 وکٹس
2009 میں 26 وکٹس
یہی آخری 2009 والا سال اس کا برا رہا بس، جہاں 8 میچز کی 12 اننگز میں 26 وکٹس ہی لے سکا، اتنا برا بھی نہیں مگر مرلی کی لیول کا نہیں تھا، ہوسکتا ہے اس نے مزید ٹیم پہ بوجھ بننا مناسب نہ سمجھا ہو اس لیے اگلے سال یعنی 2010 میں ایک ہی میچ کھیل کر 8 وکٹس لے کر 800 وکٹس پوری کرکے ٹیسٹ کرکٹ سے رٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔ وہ آخری میچ 18 جولائی سے گالے میدان پہ انڈیا کے خلاف شروع ہوا تھا اور کل بھی 18 جولائی ہے!
عظیم کھلاڑی کو گئے آج 14 برس مکمل ہونے کو ہیں، لگتا پورا ہفتہ مدحِ مرلی سے بھرپور رہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی کھلاڑی کو ناپنے کا پیمانہ فقط اعدادوشمار شمار نہیں ہوتا پر دو کھلاڑی ایسے ہیں جن کے رکارڈز اتنے ناقابلِ یقین ہیں کہ باقی ان کے آدھے تک پہنچ کر بھی لیجنڈ کہلائے جاتے ہیں، ان میں ایک تو مرلی دھرن کی پرفارمنس ہے اور دوسرا کوہلی کی ونڈے پرفارمنس ہے۔ کوہلی کے لیے پھر بھی کچھ نہ کچھ ایک فیصد ہی صحیح کلام ہوسکتا ہے۔
ایسے میں اگر کوئی آکر اگر مگر چونکہ چنانچہ کرکے مرلی کی عظمت پہ حرف بھی اٹھائے تو اس کو "السلام علیکم” کہیں اور چلتا کریں۔ یہ واحد مرلی ہی ہے جہاں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ اس کی عظمت کے لیے اس کے اعدادوشمار شمار ہی کافی ہیں۔
مرلی کا ذکر ! آخری قسط
آج 22 جولائی ہے، 14 برس قبل آج ہی کے روز مرلی نے اپنی آخری اور 800ویں وکٹ لے کر ایک نئی تاریخ رقم کردی تھی۔
تھوڑا اس کا وہ پس منظر بھی دیکھتے ہیں جو اس وقت کے کپتان سنگاکارا نے وزڈن کے لیے 2019 میں لکھا تھا، لکھتے ہیں؛ "میچ سے دس بارہ روز قبل جب مرلی نے اعلان کیا کہ یہ میچ اس کا الوداعی ہوگا تو ہم اس کے پاس کمرے میں گئے تھے کہ آپ جلد بازی نہ کریں، 800 میں 8 وکٹس ہی رہتی ہیں، ایک آدھ مزید میچ بھی لگ سکتا ہے، اس لیے اپنا فیصلہ بدل دیں۔
تو مرلی کا جو جواب تھا وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے، وہ بولا کہ میں سو فیصد فٹ نہیں ہوں، ایک ماہ پہلے انجری سے باہر آیا ہوں، پچھلے سال بھی ان فٹ رہا اور اس وقت اتنا فٹ نہیں کہ دو میچز لگاتار کھیل سکوں، اس لیے اب کسی اور کا حق بنتا ہے کہ وہ میری جگہ لے، 800 وکٹ کا سنگِ میل ملنا نہ ملنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ، میں بس آخری میچ جیت کر یادگار بنانا چاہتا ہوں، اچھے انداز میں اختتام چاہتا ہوں۔”
اب جب انسان کی نیت اتنی صاف ہو تو پھل تو ملتا ہی ہے۔
ہندوستان ٹائمز نے 2020 میں لکھا تھا کہ مرلی نے تو چیلنج کردیا تھا کہ یہ آخری میچ ہے اور 8 وکٹ لیکر 800 وکٹ لے رہونگا، جس پہ سنگا نے مینیجمنٹ کے ساتھ میٹنگ میں بلواکر بہت بات چیت کی مگر وہ اپنے فیصلے پہ اڑا رہا۔ اب جو بھی ہوا ہو پر اتنا ہے کہ بڑے جگر والے ہی اتنا بڑا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اس آخری میچ میں ملنگا بھی خوب وکٹس لے رہا تھا، مرلی کو بھی اپنی وکٹس کو 800 تک پہنچانا تھا، آخری دن چوتھی اننگز میں لنچ تک انڈیا کے 8 آؤٹ ہوچکے تھے، مرلی 799 وکٹ کرچکا تھا، ایک وکٹ باقی تھی، ادھر لکشمن کھڑا تھا، کھانے کے وقفے کے بعد لکشمن آؤٹ ہوا، اور حیران کن طور پر رن آؤٹ ہوا، ورنہ اس وقت تو دیگر سری لنکن گیند باز بھی یہی چاہتے ہوں گے ہم وکٹ نہ لیں مرلی بھلے وکٹ لے، اب آخری وکٹ تھی، سب کی نظریں مرلی پر تھیں، بالآخر آخری بلے باز پرگیان اوجھا کے بلے سے مرلی کی گیند پر ایج ہوتی ہوی گیند سلپ میں کھڑے مہیلا کے ہاتھوں میں پیوست ہو جاتی ہے اور میچ جیتنے سے زیادہ 800ویں وکٹ کا جشن شروع ہوجاتا ہے۔
مرلی فطرتًا ٹھنڈے مزاج کا انسان تھا، بے فضول کی سلیجنگ اور غصہ اس کے پاس نہیں ہوتا تھا، وہ یہ سلیجنگ کے پینترے کے بنا ہی وکٹ لینے کا ہنر جانتا تھا۔ بڑا ہی کوئی دلبر بندا تھا، کہتے ہیں فلنٹوف کے ساتھ اس کی یاری ہوگئی تھی، اب دونوں میں یہ کمنٹمینٹ ہوی کہ مرلی فلنٹوف کو ‘دوسرا’ نہیں کرے گا اور فلنٹوف مرلی کو باؤنسر نہیں کرے گا، پھر یاری نبھائی بھی دونوں نے، ایسے ایک میچ میں مرلی بیٹنگ پہ تھا فلنٹوف گیند کیے جارہا تھا، سب طرح کی گیند کر رہا تھا مگر باؤنسر نہیں، جس پہ انگلینڈ والے تپ گئے تھے کہ فلنٹوف باؤنسر کیوں نہیں کر رہا۔
مرلی کی آخری وکٹ پہ مہیلا نے کیچ پکڑا تھا، اور یہ 77ویں بار ہو رہا تھا کہ مرلی کی گیند پہ مہیلا نے کیچ پکڑا تھا، وکٹ کیپر اور خود بولر کے علاوہ باقی کسی فیلڈر اور بولر کا ایسا کمبینیشن نہیں کہ ایک ہی بولر کی گیند ایک ہی فیلڈر اتنے کیچز پکڑے۔
بات صرف 800 وکٹس تک محدود نہیں ہے ایسے کئی رکارڈز ہیں جن کے دم پہ مرلی یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ جیسے ٹیسٹ میں سب سے زیادہ مین آف دا سیریز کا رکارڈ مرلی کے پاس ہے، مرلی نے 61 سیریز میں 11 بار مین آف دا سیریز کا ایوارڈ لیا جس کے لیے اس کو 133 میچز کھیلنے پڑے، دوسری طرف اینڈرسن 68 سیریز میں 188 میچز کھیلے، اور سچن نے 74 سیریز میں 200 میچز کھیل لیے مگر دونوں ہی مرلی کے آدھے مین آف دا سیریز ایوارڈز تک نہ پہنچ پائے، دونوں نے پانچ پانچ بار ہی یہ ایوارڈ لیا۔
وجہ وہی ہے سچن لمبی اننگز اتنی نہیں کھیل پایا جتنی میچز کھیلی ہیں اور ویسے ہی اینڈرسن بھی تھا کہ آئے اور میچ میں آٹھ دس وکٹس لے کر چھا جائے ایسا بھی آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوا ہے۔
مرلی سے زیادہ میچز کھیلنے والے مزید 16 کھلاڑی ہیں، مگر مرلی کے 19 مین آف دا میچز ایوارڈز سے زیادہ صرف 166 میچز کھیلنے والے کیلس نے لیے ہیں ، کیلس 23 بار مین آف دا میچ کا ایوارڈ لے کر ٹاپ پر ہے۔ جب کہ سب سے زیادہ میچز کھیلنے والے مرلی سے تو کیا دوسروں سے بھی بہت بہت پیچھے ہیں۔
یہ تمام تر اچیومینٹس اس کے ٹیسٹ کیریئر کی رہیں، ونڈے کی پانچ سو زیادہ وکٹس اور وہاں گاڑھے ہوے کامیابیوں کے جھنڈے ایک الگ ہی قصہ ہیں۔
مرلی یکتا تھا جس نے اپنے بل بُوتے پر ٹیم کو کئی کامیابیاں دکھائیں اور اس مقام پر لایا جہاں دوبارہ جانا اب اسی ٹیم کے لیے مشکل ہے۔
مختصر یہ کہ مرلی نہ فقط عظیم ترین کرکٹر گردانا جائے گا بلکہ ایشیا کے عظیم ترین اسپورٹس مین میں سے ایک رہے گا۔
باقی مہارتیں، ٹیلنٹ، تجربے، ایجادات، خوبصورت اسٹائلس اور لمبے عرصے تک کھیلنا وغیرہ____ یہ سب چیزیں بلاشبہ اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہوں گی مگر یہ سب اس وقت سود مند ثابت ہوتی ہیں جب رٹائرمنٹ کے بعد کھلاڑی پیچھے مڑ کر دیکھے تو کئی کامیابیاں اس کو نظر آئیں ورنہ پھر تاریخ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کتنا اچھا کور کے اوپر چھکا لگاتے تھے، گیند کو دونوں جانب کتنا اچھا سوئنگ کرتے تھے، کتنی تیزی سے یارکر کرتے تھے، یہ سب اور اس جیسی کئی چیزیں ٹیم کو کما حقّہ فائدہ دیتی ہیں تو اس سے بہتر کچھ نہیں پر اگر نہیں تو تاریخ کے اس صفحے پر جہاں عظیم کھلاڑیوں کی لسٹ لگی ہوی ہے اُدھر آپ کا نام درج نہ ہوپائے گا۔
ایک اور پوسٹ یہ بھی تھی؛
مرلی! عظمتوں کا مینار! تیسری قسط
اگر آپ کھیلوں کے شوقین ہیں تو آپ نے زندگی میں کبھی نہ کبھی یوسین بولٹ اور لینس آرم اسٹرونگ کا نام تو سنا ہی ہوگا، دونوں کو خوب پذیرائی ملی، اپنی اپنی متعلقہ فیلڈز یعنی سائکلنگ ریسز اور رننگ ریسز میں دونوں لینس اور یوسین نے دنیا کو حیران کیا، میرا نہیں خیال کہ کھیلوں کے میدانوں میں گزشتہ 24 برسوں یعنی رواں صدی میں ایسی کارکردگیاں کسی اکیلے کھلاڑی کی طرف سے دیکھنے کو ملی ہیں جیسے ان دو کے کارنامے ہیں، دونوں نے خوب نام بھی کمایا۔ ان کے ہم پلّہ اگر کوئی دوسرا کھلاڑی ہوسکتا ہے تو بنا کسی مبالغہ آرائی کے رواں صدی میں مرلی دھرن ہی ہوگا جس نے اپنے شعبے یعنی بولنگ میں وہ کچھ کیا جو دوسرا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، فرق یہ رہ جائے گا کہ یوسین اور لینس ایسی گیمز کے کھلاڑی ہیں جس کا انحصار ایک ہی کھلاڑی پر ہوتا ہے جبکہ مرلی کے ساتھ دس اور کھلاڑیوں کا ہونا لازمی تھا، جیتنے کے لیے باقیوں کا عمدہ کھلاڑی ہونا لازمی ہے، شاید اس لیے کرکٹ کے سرکرلز میں بھی مرلی کو وہ عظمت نہ ملی جو یوسین اور لینس کو ملی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کرکٹ ٹیم گیم ہے جیتنے کے لیے گیارہ کھلاڑیوں کو اپنا بہترین کھیل پیش کرنا پڑتا ہے، حالات ، مواقع اور میدان اپنی جگہ فقط تیز ہوا کے چلتے ہوے چند جھونکے بھی آپ کی ہار اور جیت کا فیصلہ کرنے لگ جاتے ہیں ، کرکٹ گیم ہی ایسی ہے، یہی کچھ ہم اس سال کے ورلڈکپ میں بھی دیکھ چکے ہیں جہاں ایسا کوئی میچ نہیں تھا جس میں کمنٹیٹرز ہوا کو ڈسکس نہ کر رہے ہوں۔
خیر بات بہت دور نکل جائے گی، مرلی کا مقام بلاشبہ بریڈمین کی ہی لیول کا ہے، بریڈمین کو ہم میں سے کوئی نہ دیکھ پایا ہے مگر مرلی کو ہم میں سے بہت سوں نے دیکھ رہا ہے، کرکٹ میں بولنگ کا بریڈمین تو مرلی کو کہہ ہی سکتے ہیں۔
کرکٹ ٹیم گیم ہے اور یہی چیز وارن اور مرلی میں فرق کرتی نظر آتی ہے۔ مرلی اور وارن کی آمد 1992 میں ہوتی ہے، پھر دسمبر 1999 تک یعنی نئی صدی آنے تک وارن 80 ٹیسٹ میچز کھیل چکا تھا اور مرلی نے فقط 48 میچز کھیلے تھے۔
مرلی جس ٹیم میں اپنی انٹری کر رہا تھا اس ٹیم کو فقط دس سال ہوے تھے ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے ہوے، 1982 میں ٹیسٹ اسٹیٹس ملنے کے بعد مرلی کے ڈیبو تک سری لنکا نے 38 ٹیسٹس کھیلے تھے اور دس سالوں میں فقط دو میچز ہی جیت پائے تھے، پھر بھلا ہو مرلی کا جس کے آنے سے ڈی سلوا، رانا ٹنگا اور جے سوریا جیسے کئی سری لنکنز کو ہمت ملی کہ ہم جیت سکتے ہیں۔
وہ ٹیم جو دس برسوں میں فقط دو میچز جیتی تھی مرلی کے آنے کے بعد جیسے ان کی قسمت ہی بدلنے لگی، وہی ٹیم اگلے چار میں سے دو میچز جیت چکی تھی، مرلی کے پہلے دو ٹیسٹ تو آسٹریلیا کے خلاف تھے، جن کے خلاف جیتنا ویسے ہی مشکل تھا تو شروعاتی دونوں میچز میں مرلی کی کارکردگی بھی بالکل نہ ہونے کے برابر ہی تھی، پر اگلے دو میچز نیوزیلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف تھے، دونوں سری لنکا جیتا، ایک میں سات وکٹس اور دوسرے میچ میں پانچ وکٹس لے کر وہ اپنے کھلاڑیوں کو کہتا ہوگا کہ ہمتِ مرداں مددِ خدا ! بس اپنے اوپر اعتماد کریں باقی جیت دور نہیں ہے اور پھر وہیں سے سری لنکا پہلے جیسی نہیں رہتی، آنے والے وقت نے پھر وہ منظر بھی دیکھا جب وہی تھکی ہوی ٹیم انگلینڈ پاکستان نیوزیلینڈ ویسٹ انڈیز اور انڈیا جیسی ٹیمز کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گئی تھی، نئی صدی کا سورج جب طلوع ہوا تو پھر مرلی اپنے بل بوتے پر اپنی ٹیم کو ایک بہترین پوزیشن پر لاچکا تھا۔
کرکٹ جیسی ٹیم گیم میں مرلی اکیلا تھا، کیسے؟
وہ ایسے کہ 1992 میں شروع ہونے والا ٹیسٹ کیریر مرلی کا ختم ہوا تو مرلی آٹھ سو وکٹس لے چکا تھا، انہی اٹھارہ برس میں سری لنکا سے جو دوسرا بہترین بولر آیا وہ چمنداواس تھا جس نے اس عرصے میں 309 وکٹس لی تھیں، جو مرلی کی وکٹس کے مقابلے میں چالیس فیصد بھی نہیں بنتی، کبھی کسی دوسرے بولر کے ساتھ ایسا ہوتا ہوا ہم نے نہیں دیکھا کہ ایک ہی بولر وکٹس لیے جارہا اور دوسرا کوئی اس کی آدھی وکٹس تک بھی نہ پہنچ پائے۔
یہ بھی سنیے کہ مرلی کے ڈیبو سے ٹیسٹ رٹائرمنٹ تک سری لنکن ٹیم نے 1968 وکٹس لی تھیں جس میں سے 800 تو اکیلے مرلی کی تھیں، جو کہ لگ بھگ 41 فی صد وکٹس بنتی ہیں۔
جس نے 18 سالوں سے ایسے ٹیم کو سنبھالا ہوا پھر بھی کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں کا ذکر آئے اور پہلے پہل وون رچرڈز اور سچن کا نام لے کر بات ختم کی جائے تو مرلی دور کھڑا کہیں بے بسی سے مسکرا رہا ہوتا ہے پھر اس ظلم پر لکھنے والے یہ تو ضرور لکھیں گے کہ مائیکل ہسی تین چار سال آسٹریلیا کو کیا سنبھالتا ہے آپ اسے "مسٹر کرکٹ” کہہ دیتے ہیں کم از کم مرلی کو "مسٹر پریشر” کے اعزاز سے نواز کر ہی انصاف کی تقاضا پوری کردیتے کہ 18 برس کم عرصہ نہیں ہوتا۔
جیسے مرلی نے چالیس سے زیادہ فی صد اپنی ٹیم کی طرف سے وکٹس لیں، ایسا ہمیں نیوزی لینڈ کا رچرڈ ہیڈلی نظر آتا ہے، ہیڈلی کے کیریر میں نیوزی لینڈ نے 1207 وکٹس لی تھیں، جس میں سے ہیڈلی نے 431 لی تھیں جوکہ 35 فیصد بنتا ہے۔ اندازہ لگالیں ہیڈلی کا دور ستر اسی کی دہائی کا تھا، اور یہی کام اس سے کہیں بہتر انداز میں مرلی اس دور میں کر رہا تھا جو کرکٹ کی تاریخ میں بیٹنگ کے لیے سب سے زیادہ سازگار اور بہترین دور تھا۔
مرلی کی رٹائرمنٹ تک اعدادوشمار کے مطابق مرلی کے ہوتے ہوے سری لنکا نے 54 ٹیسٹ میچز جیتے اور 41 ہارے، جب کہ مرلی کے سوا انھوں نے 2010 تک 28 ہارے تھے اور فقط سات ٹیسٹس جیتے تھے۔ دوسری طرف ہیڈلی کے ہوتے ہوے نیوزی لینڈ نے 22 میچز جیتے 28 ہارے، اس کے بعد ہیڈلی کے سوا 2010 تک 117 ہارے اور 46 جیتے۔ مرلی اور ہیڈلی کا امپیکٹ کیا تھا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جہاں واضح دیکھا جا سکتا ہے ایک گیارہ بندوں کی ٹیم میں سرینلکن ٹیم جیت کے لیے مرلی کی کتنی محتاج تھی۔
باقی جس کسی نے بھی تیس سے زائد میچز کھیلے ہیں جیت کے لیے اتنا انحصار ایسے کسی ایک کھلاڑی کی کارکردگی پہ کبھی نہیں رہا۔
مرلی کے ہوتے ہوے سری لنکا 54 ٹیسٹس جیتا جہاں اس کی وکٹس 438 ہے۔
دوسری طرف وارن ہے، اس کے ہوتے آسٹریلیا 92 میچز جیتا، جہاں وارن کی وکٹس 510 ہیں۔ 38 میچز اور 72 وکٹس کا فرق ہے۔ آسٹریلیا کی ٹیم وارن پہ نہیں چلتی تھی ، مگر سری لنکا مرلی کے دم پر کھیلتی تھی۔
ایسا تاریخ میں شاید کسی ‘ٹیم گیم’ والے کھیل میں ایسا ہوا ہو کہ ایک ہی کھلاڑی پر اتنا انحصار ہو، یوں کہہ لیں دس بہنوں کا جیسےکوئی ایک بھائی ہو، پھر شاید کوئی فٹ بال کا متوالا میراڈونا کی مثال دے، مثال درست ہے مگر میراڈونا کا عروج 1982 تا 1986 تک ہی نظر آئے گا ارجنٹینا کے لیے ، یہاں مرلی کی بات ہی الگ ہے۔ وہ سالوں تک یہ بوجھ اٹھاتا رہا۔
2000 سے 2009 تک دس سالوں میں تو ہر سال مرلی ٹاپ وکٹ ٹیکر ہوتا اگر اس کو اتنے میچز کھیلنے کو مل جاتے جتنے ان سالوں میں ٹاپ وکٹ ٹیکرز کو ملے ۔ دس سال مستقل مزاجی سے بھرپور کارکردگی دکھانا ایک بولر کے لیے ناممکن سی بات ہے سوائے مرلی کے لیے۔
خیر آج 18 جولائی ہے، آج ہی کے روز چودہ برس قبل مرلی کا آخری ٹیسٹ میچ شروع ہوا تھا، مرلی 792 وکٹس پہ تھا، 18 جولائی میچ کا پہلا دن تھا، پہلے ہی دن 68 اوورز کا ہی کھیل ہوسکا تھا، اتنے میں کپتان سنگاکارا شاندار سینچری کرکے پویلین بیٹھا تھا، سری لنکا کی اننگز جاری تھی، پھر بارش ہوی، دوسرے دن یعنی 19 جولائی کو پھر سے بارش ہوی ، دوسرے پورے دن ایک اوور بھی کھیل کا نہ ہوسکا اور دنیا والے امید چھوڑ چکے تھے کہ مرلی کی 800 وکٹس کا پورا ہونا اب مشکل ہے مگر مرلی نے مشکل کو آسان بنایا اور دنیا دیکھتی رہ گئی اور مرلی 800 وکٹس لیے گھر جارہا تھا۔
کوئی انڈین سابق اسپنر بشن سنگھ بیدی میچ کے بعد مرلی کے خلاف زبان درازی کرتا نظر آیا کہ ایکشن ٹھیک نہیں ہے ایسے ہے ویسے ہے، پھر بعد ازاں مرلی نے بھی اس کو سنائی تھی کہ چاچا ! پہلے آپ خود کو دیکھ لیں! اچھا ہوا چالیس پچاس سال پہلے بولنگ کرگئے، ورنہ اس دور میں ہوتے تو آج کے بلے باز ایسی دھلائی کرتے کہ پھر کبھی بولنگ کا نام نہ لیتے۔
