
دریا کی موجیں کبھی شفاف پانی کی رقصاں لہریں نہیں ہوتیں۔ وہ تو وقت کی طرح بہتی ہیں، کبھی سکون سے اور کبھی طغیانی سے۔ یہ لہریں اپنے ساتھ زمین کے ٹکڑے، درختوں کی جڑیں اور کبھی کبھی انسانوں کی سانسیں بھی بہا لے جاتی ہیں۔ یہی سوات میں بھی ہوا۔ سوات کا دریا جو پرفضا وادیوں کا نگینہ، سیاحوں کی توجہ کا مرکز اور قدرت کی صناعی کا شاہکار ہے، اچانک ایک وحشی درندے میں بدل جائے گا، یہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ چند لمحوں میں ایک سیلابی ریلا، جو پہاڑوں پر برسنے والے مون سون کی بارشوں کا نتیجہ تھا، غراتا ہوا وادی سے نیچے اترا اور پھر اس منظر کا پیش خیمہ ثابت ہوا جو ہمیشہ ہماری اجتماعی بے حسی اور انتظامی نااہلی کی یاد دلاتا رہے گا۔
چند لمحوں پہلے تک دریا کی رونق دیکھتے، تصویریں بنواتے اور خوشی سے چہکتے سیاح اچانک دریا کے بے رحم بہاؤ میں پھنس گئے۔ دریا میں پڑے پتھر، ٹیلے اور چھوٹی چٹانیں جو کبھی پکنک کا مسکن رہی ہونگی، ان سیاحوں کیلئے موت کے پھندے بن گئیں۔ یہ لوگ وہیں کھڑے، سیلاب کی تیزی میں پھنسے، گھٹنوں، کمر اور پھر سینے تک پانی میں ڈوبتے، ہاتھ پھیلائے، چیختے، چلاتے اور مدد کے لیے پکارتے رہے لیکن ان کی آوازیں سیلاب کے ہیبتناک شور میں کہیں گم ہوگئیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ مہیب آوازیں انتظامیہ کے کانوں تک پہنچیں بھی تو اس وقت نظام کی چستی، حکومت کی مشینری اور ہماری فوری کارروائی کی صلاحیت کہاں تھی؟
مرنے والے کو آخری پکاروں کے جواب میں کیا ملا؟ صرف انتظار اور وہ بھی لمبا، کربناک اور مہلک انتظار۔ ریسکیو کی ٹیمیں جو ہر ایسے سانحے کے بعد امید کی کرن بن کر آتی ہیں، وہ دیر سے پہنچیں اور جب پہنچیں تو کیا تھا ان کے پاس؟ ضروری آلات؟ جدید مشینری؟ پانی میں بہہ رہے انسانوں کو بچانے کے لیے درکار فوری اور موثر سازوسامان؟ نہیں، ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
یہی تو المیہ ہے۔ یہی تو وہ کڑوا سچ ہے جو ہر بار ہمارے سامنے آتا ہے اور ہم آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ریسکیو ٹیم کے ہاتھوں میں رسیاں تک نہ تھیں۔ شاید حوصلے ہوں لیکن بے پناہ طاقت سے لڑتے دریا کے سامنے بغیر جدید ریسکیو بوٹس، بغیر لائیف سیونگ جیکٹس، بغیر ہائی پاورڈ پمپس اور واٹر نیٹس کے وہ کیا کرسکتے تھے؟ کنارے پر کھڑے لوگ بھی صرف دیکھ سکتے تھے کہ کس طرح ایک ایک کرکے ریلے میں پھنسے سیاح دریا کی بے رحم لہروں میں غائب ہو رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی قیمتی جانوں کا سفر ختم ہوا۔ کون جانتا ہے کہ دریا نے انہیں کس کنارے پھینکا ہوگا؟ ان اٹھارہ میں سے دس افراد ایک ہی خاندان کے تھے۔ سیالکوٹ کے ڈسکہ سے تعلق رکھنے والا وہ خاندان جو شاید سالوں کی محنت کے بعد خوشی کے چند لمحے تلاش کرنے سوات کی سرزمین پر آیا تھا۔ ان کی گاڑیاں، ان کے سامان اور شاید ان کے بچوں کے کھلونے بھی کنارے پر پڑے رہ گئے ہوں گے۔ ایک ہی خاندان کے دس چہرے مٹ گئے۔ دس کہانیاں ادھوری رہ گئیں۔ کتنی بیوائیں، کتنے یتیم اور کتنے بوڑھے والدین اچانک تاریکی میں ڈوب گئے ہوں گے۔ یہ صرف اعداد نہیں ہیں۔ یہ تو ٹوٹے ہوئے دلوں، بکھرے ہوئے خوابوں اور ختم ہوتی نسلوں کی داستانیں ہیں۔
افسوس یہ بھی ہے کہ یہ کوئی نئی داستان نہیں ہے۔ یہ تو ایک پرانی کتاب کا وہ باب ہے جو ہر سال، بالخصوص پہاڑی علاقوں میں مون سون کے موسم میں بار بار پلٹ کر پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ سوچیں کہ صرف گزشتہ چند برسوں میں ہی کتنے ایسے سانحے ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئے ہیں؟ ناران، کاغان، نیلم ویلی، مرگلا ہلز اور سوات۔ ہر بار وہی منظر اور ایک جیسا منظر۔
سیاحوں کا بے خبری یا انتظامیہ کی لاپرواہی سے خطرناک مقامات پر جاپہنچنا۔ اچانک سیلابی ریلا آنا۔ مدد کے لیے لوگوں کا پکارنا، دور کھڑے "تماشائیوں” کا ویڈیوز بنانا۔ ریسکیو کا دیر سے پہنچنا۔ سازوسامان کی شدید قلت۔ بچاؤ کی کوششوں میں جانیں خطرے میں ڈالنا۔ چند جانوں کا بچ جانا۔ کئی کی لاشوں کا برآمد ہونا۔ کچھ کا کبھی پتہ نہ چلنا۔ پھر چند دن کی میڈیا ہلچل۔ حکومت کا نوٹس اور فوری ہدایات۔ انکوائری کمیٹیوں کا قیام۔ چند افسران کا عارضی معطل کیا جانا۔ مستقبل میں ایسے واقعات کے نہ ہونے کے دعوے اور وعدے۔ الزامات کا تبادلہ اور پھر؟ پھر سناٹا، پھر ایک لمبی خاموشی اور پھر اگلے سیزن کا انتظار۔ یہ ہماری قومی عادت بن چکی ہے۔ ہم المیوں کو بھول جاتے ہیں جب تک کہ اگلا المیہ ہمارے دروازے پر دستک نہ دے دے۔
سوال یہ ہے کہ اس تسلسل کا ذمہ دار کون ہے؟ جواب واضح ہے، مگر تلخ ہے۔
اداروں اور حکومتوں کی نااہلی کا کڑوا گھونٹ ہم ہمیشہ سے پیتے چلے آئے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ موسمیات کے محکمے کی طرف سے آنے والے سیلاب کی واضح وارننگز کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا؟ خطرناک دریائی کناروں اور ٹیلوں پر واضح وارننگ بورڈز اور باڑیں لگائی جاتیں یا پولیس کی تعیناتی کی جاتی؟ کیا سیاحتی مقامات پر ایمرجنسی ریسکیو سنٹرز قائم نہیں کیے جاسکتے تھے جن میں جدید ترین آلات، تربیت یافتہ اہلکار اور ہر وقت تیار رہنے والی کشتیاں موجود ہوں؟ کیا مقامی انتظامیہ کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ موسمی حالات دیکھ کر فوری طور پر خطرناک علاقوں کو سیاحوں کے لیے بند کردے؟ مون سون سیزن سے پہلے ہی ریسکیو مشقوں کا اہتمام کیوں نہیں ہوتا؟ اس مقصد کیلئے مختصد بجٹ کہاں جاتا ہے؟ کیا ہماری ترجیحات میں انسانی جانوں کی حفاظت شامل ہی نہیں؟ یہ سوالات بار بار اٹھتے ہیں لیکن جوابات کی گونج خالی کانوں سے ٹکراتی ہے اور مایوس ہوکر لوٹ آتی ہے۔ ہر سانحے کے بعد رپورٹیں بنتی ہیں، سفارشات تیار ہوتی ہیں، لیکن عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا۔ یہی نااہلی ہے جو ہمارے ہاتھوں کو اس وقت باندھ دیتی ہے جب سیلاب اپنا قہر برپا کرنے کو سر پر آن پہنچتا ہے۔
لیکن صرف حکومتی ناکامی اور نااہلی ہی سانحات کی وجہ نہیں۔ اس سانحے کا ایک اور پہلو بھی ہے جو شاید زیادہ کربناک ہے، وہ ہے ہماری اپنی اجتماعی بے حسی۔ ہماری اپنی لاپرواہی۔ ہماری اپنی ضد۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ پہاڑی دریا اچانک سرکش ہوکر طغیانی پر آسکتے ہیں؟ کیا ہم نے خبروں میں ایسے واقعات نہیں دیکھے ہوتے؟ پھر بھی ہم ان خطرناک ٹیلوں پر اور ان غیر محفوظ چٹانوں پر اپنے کنبے کے ساتھ بیٹھ کر تصویریں بنواتے ہیں۔ ہم وارننگ بورڈز کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مشورے کو "بہت محتاط” سمجھ کر ٹال دیتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ المیہ صرف دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے، یہ ہمارے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ یہی خود غرضی اور یہی بے فکری ہمیں موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے۔ پھر جب سانحہ ہو جاتا ہے تو ہم صرف چند دن کے لیے حیران، غمگین اور غصے سے لال پییلے ہوتے رہتے ہیں، سوشل میڈیا پر پوسٹس شیئر کرتے ہیں، اداروں کو کوستے ہیں اور اس کے بعد ہم پھر اپنی روزمرہ کی زندگی میں مگن ہوجاتے ہیں۔ دوسرے کی تکلیف اور دوسرے کا گھر اجڑنا ہمارے لیے صرف ایک خبر بن کر رہ جاتی ہے۔ یہی بے حسی ہمیں ان بنیادی سوالات کو دبانے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر ہماری حکومتیں کیوں نہیں سیکھتیں؟ آخر ہماری انتظامیہ اتنی سست کیوں ہے؟ یہ اجتماعی بے حسی ہی تو ہے جو حکمرانوں کو جوابدہی سے بے نیاز کردیتی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں اور وہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اگلے سال پھر اسی مقام پر شاید ہمارے اپنے ہی کسی عزیز کا چہرہ دریا کی لہروں میں گم ہوجائے۔
سوات کا دریا اب شاید پہلے جیسا پرسکون ہوگیا ہو یا چند دن تک ہوجائے لیکن اس کے کنارے پر جو خاموشی چھائی ہے، وہ چلا رہی ہے، وہ درجنوں انسانی جانوں کی چیخوں، ان کے پیاروں کے رونے اور ہماری اجتماعی ناکامی کے ماتم میں چلا رہی ہے۔ یہ خاموشی پوچھ رہی ہے کہ کب تک؟ کب تک ہم اپنے شہریوں کی جانوں کی حفاظت کے بنیادی فرض کو نظر انداز کرتے رہیں گے؟ کب تک ریسکیو کے نام پر نیم تربیت یافتہ اہلکاروں کو ناکافی سامان کے سہارے زندگیاں بچانے کی ناممکن سی جنگ لڑنی پڑے گی؟ کب تک ہم موسمی وارننگز کو مذاق سمجھتے رہیں گے؟ کب تک ہم سیاحوں کو خطرناک مقامات پر جانے سے روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے سے قاصر رہیں گے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کب تک ہم المیوں کو بھولتے رہیں گے؟ کیا ان قیمتی بے گناہ انسانی جانوں، خاص کر اس ایک خاندان کے دس افراد کی موت کا بدلہ صرف انکوائری رپورٹس اور آنسوؤں کے چند قطروں سے لے لیا جائے گا؟ یا پھر ہم اس بار کچھ مختلف کریں گے؟ کیا ہم اپنی بے حسی کا کفن اتار پھینکیں گے؟ کیا ہم اپنے حکمرانوں سے پوچھیں گے کہ پچھلے سانحے کے بعد کی گئی سفارشات پر کیا عمل ہوا؟ کیا ہم خود بھی احتیاط کا دامن تھام لیں گے؟
سوات کے دریا نے ایک بار پھر ہمیں دیکھ لیا ہے۔ اس نے دیکھ لیا ہے کہ ہم کس طرح اپنے مُردوں کو دفناتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس بار دریائے سوات کی آنکھوں میں جھانکنے کی ہمت کریں گے یا پھر اگلے سانحے کا انتظار کرتے رہیں گے؟ وقت دریا کی طرح بہتا جارہا ہے۔ جواب ہمارے پاس ہونا چاہیے۔ ورنہ دریا اگلے موسم گرما میں پھر کچھ چہرے اپنے ساتھ بہا لے جائے گا اور ہم پھر سے صرف تماشائی بنے رہ جائیں گے۔
