،شواہد کے بغیر ملازم کو برطرف کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے، سپریم کورٹ
،شواہد کے بغیر ملازم کو برطرف کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ شواہد کے بغیر ملازم کو برطرف کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ سرکاری خبر رساں ادارے ‘اے پی پی’ کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے نجی ادارے کے ایک سابق ملازم سعید احمد کی برطرفی کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ملازم کے خلاف الزامات ثابت کرنے کے لیے ضروری گواہوں کو طلب نہ کرنا سنگین قانونی خامی ہے، لہٰذا ہائی کورٹ سندھ کا فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا۔
حیدرآباد: سی این جی اسٹیشن پر مسافر وین میں دھماکا، 6 مسافر جُھلس گئے
جسٹس محمد علی مظہر نے جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس عقیل احمد عباسی کی معیت میں فیصلہ تحریر کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے دوران دانتوں کے کلینک کے ڈاکٹر یا منتظم کو بطور گواہ شامل نہ کرنا انکوائری آفیسر کی بنیادی قانونی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہے۔
سعید احمد، جو کمپنی میں اٹھارہ سال سے مستقل ملازم تھے، پر الزام تھا کہ انہوں نے دانتوں کے علاج کے بل کی ادائیگی کے حوالے سے جعلی رسید جمع کرائی ہے، جبکہ اصل ادائیگی سات ہزار روپے تھی۔ اس بنیاد پر انہیں 2016ء میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ این آئی آر سی کے سنگل ممبر نے کمپنی کے موقف کے حق میں فیصلہ دیا، مگر فل بینچ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ملازم کی بحالی کا حکم دے دیا۔ بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے فل بینچ کا فیصلہ ختم کر کے سنگل ممبر والا فیصلہ بحال کر دیا تھا، جس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ریکارڈ پر چار مختلف رسیدیں موجود تھیں، جن میں رقم کے تنازع پر وضاحت ضروری تھی۔ اصل حقیقت جاننے کے لیے ڈاکٹر یا کلینک کے نمائندے کا بیان ناگزیر تھا، جسے طلب نہیں کیا گیا۔ بغیر تصدیقی شواہد کے محض شبہات کی بنیاد پر ملازم کو سزا دینا انصاف کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ تحقیقاتی عمل میں شفافیت اور قدرتی انصاف کا پورا خیال رکھنا لازم ہے۔ جب حقائق میں تضاد ہو تو ثبوت کا بوجھ ہمیشہ آجر پر ہوتا ہے، نہ کہ ملازم پر۔
عدالت نے قرار دیا کہ این آئی آر سی کے فل بینچ نے درست نشاندہی کی تھی کہ ڈاکٹر کا بیان اس کیس کا ‘اسٹار گواہ’ ہو سکتا تھا، جس کے بغیر الزامات ثابت نہیں ہو سکتے تھے۔ سپریم کورٹ نے ملازم کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی کارروائی میں بنیادی نقائص پائے گئے اور شواہد کی عدم موجودگی میں سزا برقرار نہیں رہ سکتی، لہٰذا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔