1971ء کی جنگ سے پہلے پاکستان کی تینوں مسلح افواج—بری، بحری اور فضائی—ایک دوسرے سے کٹی ہوئی تھیں۔ باہمی رابطہ اور مشترکہ منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث جنگی حکمتِ عملی کمزور رہی اور ملک کو ایک گہرا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان نیوی کو جنگ کے آغاز کا علم اُس وقت ہوا جب بری فوج اور فضائیہ اپنی کارروائیاں شروع کر چکی تھیں۔ یوں بحریہ وہ کردار ادا نہ کر سکی جو اس نے 1965ء کی جنگ میں ادا کیا تھا، جب اس کے حملوں نے بھارتی بحریہ کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
1971ء کی جنگ میں صورتِ حال اس کے برعکس رہی۔ بحریہ کو اپنے جہاز کراچی واپس لانے پڑے اور بھارتی فضائی حملوں میں نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ اس وقت تینوں افواج کے سربراہ الگ الگ کام کر رہے تھے اور سب براہِ راست وزارتِ دفاع اور وزیرِ اعظم کو رپورٹ کرتے تھے۔ کسی ایک مشترکہ قیادت یا کمانڈ کا تصور موجود نہ تھا۔
جنگ کے بعد وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1971ء کے سانحے کی وجوہات جاننے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا، جس کی سربراہی چیف جسٹس حمود الرحمٰن نے کی۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ شکست کی ایک بڑی وجہ افواج کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان تھا۔ اسی لیے اس نے سفارش کی کہ ایک مشترکہ عسکری ہیڈکوارٹر قائم کیا جائے اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ تخلیق کیا جائے۔
اُس زمانے میں میں جی ایچ کیو میں کمیونی کیشن آفیسر کے طور پر تعینات تھا۔ جب میں نے کمیشن کے سامنے اپنا بیان دیا تو جنگ کے دوران سہ افواج کے درمیان رابطے کی کمی پر خاصی گفتگو ہوئی۔ بعدازاں کمیشن کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے جوائنٹ اسٹاف ہیڈکوارٹر قائم کیا اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنائی گئی۔
تاہم چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کو تینوں افواج پر کوئی عملی کمانڈ حاصل نہ تھی۔ وہ قومی سلامتی کے معاملات میں حکومت کا محض ایک مشیر اور رابطہ کار تھا۔ یہ عہدہ زیادہ تر رسمی نوعیت کا رہا۔ ایسے کمزور بندوبست میں افواج کے درمیان اختلافات پیدا ہونا فطری تھا، خاص طور پر اُس ماحول میں جہاں سول بالادستی واضح نہ ہو۔
وقت کے ساتھ جنگ کی نوعیت بدل چکی ہے۔ آج جنگ صرف زمین، سمندر اور فضا تک محدود نہیں رہی، بلکہ سائبر اسپیس اور خلاء بھی اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی نے یہ حقیقت واضح کر دی کہ درست اور بروقت حملے جنگ میں برتری حاصل کرنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ یہ ہدف صرف اسی صورت حاصل ہو سکتا ہے جب تینوں افواج ایک مشترکہ سوچ اور ایک متحد حکمتِ عملی کے تحت کام کریں۔
محض رابطہ کاری کافی نہیں ہوتی؛ اصل ضرورت مشترکہ پن کی ہے، جس میں منصوبہ بندی، تربیت اور کارروائی سب ایک ساتھ ہوں۔ ستائیسویں آئینی ترمیم سے پہلے موجود نظام محض رسمی رابطے تک محدود تھا، جو نہ مؤثر تھا اور نہ ہی دیرپا۔ جب رابطہ عملی انضمام میں بدل جائے تو افواج کی قوت یکجا ہو جاتی ہے، اور یہی قوت دشمن پر سبقت دلانے کا ذریعہ بنتی ہے۔
اسی تناظر میں چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF) کے عہدے کا قیام ایک اہم قدم ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ایسا نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ برطانیہ میں چیف آف ڈیفنس اسٹاف مسلح افواج کا پیشہ ورانہ سربراہ اور حکومت کا اعلیٰ ترین عسکری مشیر ہوتا ہے۔ وہ وزارتِ دفاع میں اعلیٰ سول افسران کے ساتھ مل کر دفاعی پالیسی تشکیل دیتا ہے۔ اسی طرح کے انتظامات کینیڈا، بھارت، چین، جاپان اور کئی دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔
امریکہ میں اگرچہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے پاس براہِ راست کمانڈ نہیں ہوتی، مگر وہاں افواج کے درمیان گہرا اشتراک اور مکمل ہم آہنگی موجود ہے۔ امریکی عسکری سوچ میں مشترکہ پن کو کامیابی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، کمزور جمہوری روایات اور طاقت کے غیر متوازن ڈھانچے کے باعث ایک مربوط دفاعی نظام قائم نہ ہو سکا۔ نتیجتاً سہ افواج کے درمیان حقیقی ہم آہنگی جنم نہ لے سکی۔ چیف آف ڈیفنس فورسز کا قیام یقیناً درست سمت میں قدم ہے، مگر اسے محض علامتی نہ رہنے دیا جائے۔
ضروری ہے کہ CDF کا عہدہ الگ اور خودمختار ہو، اور وہ بیک وقت کسی ایک فوج کا سربراہ نہ ہو۔ سابقہ جوائنٹ چیفس ہیڈکوارٹر کو CDF ہیڈکوارٹر میں تبدیل کیا جانا چاہیے، جبکہ بحریہ اور فضائیہ سے نائب سربراہان مقرر کیے جائیں۔ یہ نظام تینوں افواج کے درمیان باری باری ہونا چاہیے، تاکہ توازن برقرار رہے۔ سب سے بڑھ کر، ایک جامع مشترکہ عسکری نظریہ تشکیل دیا جائے جو مستقبل کی جنگوں کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
آنے والی جنگیں مزید پیچیدہ ہوں گی، جن میں سائبر حملے، خلائی محاذ، ہائبرڈ جنگ اور مصنوعی ذہانت شامل ہو گی۔ ان خطرات کا مقابلہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب پاکستان کی مسلح افواج ایک دوسرے کے قریب آ کر، ایک جسم اور ایک ذہن بن کر کام کریں۔
(مصنف اسلام آباد میں قائم سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ممتاز اعزازی مشیر ہیں۔ اس مضمون میں پیش کیے گئے خیالات ذاتی ہیں اور ادارے کی نمائندگی نہیں کرتے۔)