sui northern 1

پی آئی اے کی نیلامی کل ہوگی، تین بولی دہندگان میدان میں

پی آئی اے کی نیلامی کل ہوگی، تین بولی دہندگان میدان میں

0
Social Wallet protection 2

نجکاری کمیشن کل 23 دسمبر بروز منگل پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کی نجکاری کا عمل شروع کرے گا۔ فوجی فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ کے نیلامی کے عمل سے دستبردار ہونے کے بعد اب مقابلے میں صرف تین بولی دہندگان رہ گئے ہیں۔

sui northern 2

نجکاری کمیشن کی جانب سے جاری پروگرام کے مطابق نیلامی کی بولیاں صبح 10 بج کر 45 منٹ سے 11 بج کر 15 منٹ تک جمع کی جائیں گی، جبکہ سہ پہر 3 بج کر 30 منٹ پر بولیاں کھولی جائیں گی۔ حکومت کے فیصلے کے مطابق اس پورے عمل کو ٹی وی نیٹ ورکس پر براہ راست دکھایا جائے گا۔

باقی رہ جانے والے بولی دہندگان میں ایک کنسورشیم شامل ہے جس میں لکی سیمنٹ لمیٹڈ، حب پاور ہولڈنگز لمیٹڈ، کوہاٹ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ اور میٹرو وینچرز پرائیویٹ لمیٹڈ شامل ہیں۔ دوسرا کنسورشیم عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، فاطمہ فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ، سٹی اسکولز پرائیویٹ لمیٹڈ اور لیک سٹی ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ پر مشتمل ہے، جبکہ تیسرا بولی دہندہ ایئر بلیو پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

نجکاری کمیشن کے چیئرمین اور وزیر اعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے ایک یوٹیوب انٹرویو میں بتایا کہ فوجی فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ نے پی آئی اے کی بولی کے عمل سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ منگل کو بولیاں جمع ہونے کے بعد انہیں ایک شفاف باکس میں رکھا جائے گا، جس کے بعد نجکاری کمیشن کا بورڈ اجلاس منعقد کر کے ریفرنس قیمت مقرر کرے گا۔ اس کے بعد کابینہ کمیٹی برائے نجکاری اس ریفرنس قیمت کی منظوری دے گی، جو بولیاں کھولنے کے وقت ظاہر کی جائے گی۔

محمد علی کے مطابق اگر بولیاں ریفرنس قیمت سے زیادہ ہوئیں تو کھلی نیلامی کی جائے گی، جبکہ ریفرنس قیمت سے کم ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو ترجیح دی جائے گی۔

اگلے مرحلے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ چند دنوں میں اس لین دین کی منظوری دے دے گی، جس کے بعد بولی دہندگان کے ساتھ موصول ہونے والی دستاویزات پر دستخط کیے جائیں گے۔ دستخط کے بعد نجکاری کمیشن کے پاس 90 دن ہوں گے جن میں جائیدادوں، واجبات اور لیز پر لیے گئے طیاروں کی منتقلی سمیت دیگر امور مکمل کیے جائیں گے۔

لین دین کے طریقہ کار کے مطابق بولی پی آئی اے کے 75 فیصد حصص کی بنیاد پر ہوگی۔ ان حصص کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا 92.5 فیصد پی آئی اے کو ملے گا جبکہ 7.5 فیصد قومی خزانے میں جمع ہوگا۔

محمد علی نے بتایا کہ پی آئی اے کے 25 فیصد حصص حکومت کے پاس رہیں گے جو ایک قیمتی اثاثہ ہوں گے، تاہم کامیاب بولی دہندہ ادائیگی کے بعد یہ اختیار رکھے گا کہ وہ باقی 25 فیصد حصص خرید لے یا انہیں حکومت کے پاس ہی رہنے دے۔

ان کے مطابق باقی 25 فیصد حصص کی قدر کا تعین 75 فیصد حصص کے فیصلے کے بعد کیا جائے گا۔ حکومت نے بولی دہندگان کو یہ سہولت دی ہے کہ وہ 12 ماہ کے اندر 12 فیصد پریمیم کے ساتھ باقی حصص خریدنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

بولی دہندگان کو 75 فیصد حصص کے بارے میں فیصلہ منگل کو کرنا ہوگا، جبکہ باقی 25 فیصد حصص کی خریداری کے لیے 90 دن کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بولی دہندگان نے 75 فیصد حصص کی ادائیگی ایک سال میں کرنے کی درخواست کی تھی، تاہم حکومت نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ ان کے مطابق اگر ایک سال کے دوران پی آئی اے کی کارکردگی خراب ہوتی تو خریدار خریداری سے پیچھے ہٹ سکتا تھا اور اگر بہتر ہوتی تو خریداری کے حق میں فیصلہ کرتا، جو حکومت کے لیے ناانصافی ہوتی۔

انہوں نے بتایا کہ کامیاب بولی دہندہ 90 دن کے اندر بولی کی رقم کا دو تہائی جمع کرائے گا جبکہ باقی ایک تہائی ایک سال کے اندر ادا کیا جائے گا۔

محمد علی نے کہا کہ پی آئی اے کی بحالی سے مجموعی قومی پیداوار اور مجموعی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہوا بازی کے شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ انتہائی کم ہے۔ متحدہ عرب امارات میں یہ شرح 18 فیصد، سعودی عرب میں 8.5 فیصد جبکہ پاکستان میں صرف 1.3 فیصد ہے، تاہم پی آئی اے کی صلاحیت کے باعث اس میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کے 34 طیاروں کے بیڑے میں سے اس وقت صرف 18 طیارے فعال ہیں، جبکہ پی آئی اے کے 97 ممالک کے ساتھ فضائی سروس معاہدے موجود ہیں اور 170 سے زائد ممالک میں لینڈنگ رائٹس حاصل ہیں۔

ان کے مطابق پی آئی اے اس وقت 11 ارب روپے کا خالص منافع اور 30 ارب روپے کی ایکویٹی رکھتی ہے، جبکہ 26 ارب روپے کی واجبات پی آئی اے کے پاس ہی رہیں گی جن کی ادائیگی بولی دہندگان پانچ سال میں کریں گے۔

پی ٹی آئی کے اہم رہنما مسلم لیگ (ن) میں شامل

ملازمین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مجوزہ معاہدے کے تحت ایک سال تک کسی ملازم کو فارغ نہیں کیا جا سکے گا۔ ملازمین کی پنشن اور مراعات مکمل طور پر محفوظ رہیں گی، جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن، طبی سہولتیں اور رعایتی ٹکٹوں کی ذمہ داری ہولڈنگ کمپنی کی ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ 2011 میں پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 11 ہزار 500 تھی جو اب کم ہو کر 6 ہزار 500 رہ گئی ہے، یعنی پانچ سال میں 5 ہزار ملازمین کی کمی واقع ہوئی ہے۔

محمد علی کا کہنا تھا کہ پی آئی اے ایک ایسا اثاثہ ہے جسے اگر درست انداز میں نہ چلایا گیا تو بھاری نقصان ہو سکتا ہے، تاہم بہتر انتظام کے ساتھ یہ غیر معمولی آمدن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے مطابق 25 کروڑ آبادی والے ملک میں پی آئی اے کے پاس مسافر، منزلیں، روٹس اور لینڈنگ سلاٹس موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کو سرمایہ کاری، نئے طیاروں کے اضافے اور مؤثر انتظام کی ضرورت ہے جو حکومت فراہم نہیں کر سکتی، اور جس نوعیت کے فیصلوں کی ضرورت ہے وہ صرف نجی شعبہ ہی کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق اگر ایئرلائن کو درست انداز میں چلایا جائے تو پی آئی اے دوبارہ اپنے سنہری دور میں واپس آ سکتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.