امریکہ کا شہر نیویارک ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی جانب گامزن ہے، جہاں میئر کے انتخابات چار نومبر کو منعقد ہوں گے۔ ان انتخابات میں تین امیدوار میدان میں ہیں جن میں زہران ممدانی، سابق گورنر اینڈریو کومو اور ری پبلکن رہنما کرٹیس سلوا شامل ہیں۔
زہران ممدانی کا مقابلہ آزاد امیدوار اینڈریو کومو سے ہے، جنہیں گیارہ خواتین کے ساتھ مبینہ دست درازی کے الزامات کے بعد گورنر کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ دوسرے امیدوار کرٹیس سلوا ایک معروف ریڈیو میزبان ہیں۔ تازہ ترین سروے کے مطابق زہران ممدانی 44 فیصد، اینڈریو کومو 33 فیصد اور کرٹیس سلوا 14 فیصد عوامی حمایت حاصل کیے ہوئے ہیں۔
انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے اور بحث کا مرکز امیدواروں کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تعلقات، غزہ جنگ پر مؤقف، شہری تحفظ، قانون کے نفاذ اور ہاؤسنگ و صحت جیسے عوامی مسائل ہیں۔
سی ٹی ڈی کے پنجاب میں ایک ماہ کے دوران 386 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز، 18 دہشت گرد گرفتار
زہران ممدانی نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا ہے کہ کامیابی کی صورت میں وہ گھروں اور دفاتر کے کرایے منجمد کریں گے، شہر میں مفت ٹرانسپورٹ فراہم کریں گے اور چائلڈ کیئر کے نظام کو وسعت دیں گے۔
نیویارک شہر برونکس، بروکلین، مین ہٹن، کوئنز اور اسٹیٹن آئی لینڈ پر مشتمل ہے، جس کی آبادی تقریباً 82 لاکھ ہے۔ شہر کی آبادی میں سفید فام 31 فیصد، ہسپانوی 28 فیصد، سیاہ فام 20 فیصد اور ایشیائی تقریباً 15 فیصد ہیں، جبکہ زیادہ تر شہریوں کی عمر 20 سے 60 سال کے درمیان ہے۔
قبل از وقت ووٹنگ میں اکتوبر کے دوران چار لاکھ اسی ہزار ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں، اور سروے کے مطابق نوجوان طبقہ بڑی تعداد میں زہران ممدانی کی حمایت کر رہا ہے۔
زہران ممدانی فلسطینیوں کی حمایت میں اپنے دوٹوک مؤقف کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، جنہیں عالمی عدالت انصاف میں مطلوب قرار دیا گیا ہے، نیویارک آئے تو وہ ان کی گرفتاری یقینی بنائیں گے۔
زہران ممدانی 1991 میں یوگنڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کا تعلق بھارت سے ہے۔ ان کی والدہ میرا نائر ایک معروف فلم ساز ہیں جنہیں آسکر کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے، جبکہ ان کے والد محمود ممدانی کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ زہران کی اہلیہ رما دواجی شامی نژاد آرٹسٹ ہیں۔
زہران ممدانی نیویارک ریاست کی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں، اور اگر وہ چار نومبر کے انتخابات میں کامیاب ہو گئے تو وہ نیویارک کے پہلے مسلم میئر بن جائیں گے۔ ان کی کامیابی نہ صرف ایک تاریخی سنگ میل ہوگی بلکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے صدر ٹرمپ کے دور کے بعد نئی امید کی علامت بھی۔