ٹی ایل پی پر پابندی اچھی بات ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی

ٹی ایل پی پر پابندی اچھی بات ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی

0

لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کو درست فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی دہشتگرد تنظیم سے بات چیت نہیں ہونی چاہیے۔

میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جن پر اتفاق لازم ہے، صوبوں میں بیٹھے لوگ وفاق سے بات نہ کریں تو بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ اسمبلی کو احتجاج کا مرکز بنا دیا گیا اور عوام کے پیسے ضائع ہو رہے ہیں۔

سندھ میں نمبر پلیٹس کی تبدیلی، گاڑی مالکان کو مزید دو ماہ کی مہلت مل گئی

انہوں نے کہا کہ جنگ یا قتل کے بعد بھی مسائل بات چیت سے حل ہوتے ہیں اور وزیر اعظم نے بات چیت کے دروازے کھولے ہیں۔

اسپیکر نے کہا کہ بھارتی دہشتگردی کے شواہد عالمی سطح پر پیش کیے گئے ہیں، پاکستان نے سفارتی اور دفاعی دونوں محاذ پر اپنی برتری ثابت کی ہے اور پاکستانی انٹیلی جنس کی کارکردگی کو بھی دنیا نے تسلیم کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے اور بلوچستان سمیت مختلف جگہوں پر پیسے دے کر لوگوں کو خرید کر دہشتگردی کرواتا ہے۔ بھارت یہاں پراکسی آلہ کار کے ذریعے سرمایہ کاری بھی کرتا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن اور دیگر مبینہ جاسوس پکڑے جا چکے ہیں۔

ملک محمد احمد خان نے پہلگام واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کو بہانہ بنا کر بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا، اگر 150 دنوں میں ثبوت نہ دیے جائیں تو الزامات کی کوئی حیثیت رہتی ہے۔ ان کے بقول بھارتی سوچ اور مودی نے جنگی فضا پیدا کر رکھی ہے، ہمیں مل کر خطے کو پرامن بنانا ہوگا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کوئی خطے میں شر انگیزی کرے گا تو پاکستان بھرپور جواب دے گا اور بھارتی مذموم مقاصد کا مقابلہ کیا جائے گا۔ افغانستان میں بھی ماضی میں جنگی حالات کا پاکستان پر اثر رہا ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ پاک افغان مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔

اسپیکر نے پراکسی وار کے نقصانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے نتائج کسی کے بھی فائدے کے نہیں ہوتے اور بھارت کو بھی اچھے نتائج نہیں ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف امن کی بات نہیں کرنی بلکہ عملی قدم اٹھانے ہونگے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی پر پابندی ایک مثبت اقدام ہے، کسی بھی دہشتگرد تنظیم سے بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے قوت کے ذریعے روکا جانا چاہیے۔ بات چیت صرف ان سے ہونی چاہیے جو گفت و شنید کو سمجھتے اور احترام کرتے ہوں، اور ریاست کو اپنی رٹ نافذ رکھنی چاہیے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.