ڈاکٹر مزمل ایوب ٹھاکر کا برطانوی وزیراعظم کو خط، بھارت کے مظالم پر مؤقف اپنانے کا مطالبہ

0

ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے صدر ڈاکٹر مزمل ایوب ٹھاکر نے برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف مظالم، نسل کشی، آبادی کی تبدیلی اور نوآبادیاتی توسیع پسندی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

خط میں ڈاکٹر ٹھاکر نے یاد دلایا کہ وزیراعظم اسٹارمر جب ممبئی میں برطانوی تجارتی وفد کے ساتھ نریندر مودی سے ملاقات کر رہے تھے، اسی وقت بھارتی وزیراعظم مودی نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو سالگرہ کی مبارکباد دی — جو کہ بقول ان کے، برطانیہ کی دعوٰی کردہ "اخلاقی پالیسی” کے برخلاف ہے۔

"آپ کی حکومت یوکرین پر روسی جارحیت کی مذمت کرتی ہے، لیکن کشمیری عوام آپ کی مودی سے ملاقات کو آپ کی اپنی اخلاقیات سے غداری سمجھتے ہیں۔ جب آپ روس کی مخالفت کرتے ہیں، تو مودی اس کے ساتھ قریبی اتحاد بنا رہا ہے۔ اور بھارت کا کشمیر پر قبضہ روس کی جارحیت سے 75 سال پرانا ہے۔”

ڈاکٹر مزمل ایوب ٹھاکر نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق برطانوی وزیراعظم نے مودی سے روس پر پابندیوں کی خلاف ورزی پر کوئی بات نہیں کی، جبکہ امریکہ بھارت پر روسی تیل کی خریداری پر پابندیاں لگا چکا ہے۔

"اگر ایسا ہی ہوا تو آپ صرف منافقت کے مرتکب نہیں ہوں گے، بلکہ بھارت کی یوکرین مخالف سرگرمیوں میں بھی شریک تصور کیے جائیں گے۔”

انہوں نے متنبہ کیا کہ بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے نہ صرف کشمیر کے عوام کی نسل کشی میں مددگار ہوں گے بلکہ بھارت کو اس کے توسیع پسندانہ عزائم میں بھی تقویت دیں گے۔

ڈاکٹر ٹھاکر نے مئی 2025 میں بھارت کی پاکستان کے خلاف مبینہ مہم جوئی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات خطے کو مزید غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔

انہوں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یا تو بھارت کی پرتشدد پالیسیاں روکنے کے لیے کردار ادا کرے یا پھر کشمیری عوام کی آئینی و اخلاقی مزاحمت کی حمایت کرےجیسے وہ یوکرین کی حمایت کرتا ہے۔

"برطانیہ اگر واقعی انسانی حقوق پر یقین رکھتا ہے، تو اسے بھارت جیسے فاشسٹ، نوآبادیاتی اور مسلم مخالف نظام کے خلاف واضح مؤقف اپنانا ہوگا، جو کشمیری شناخت کو مٹانے پر تُلا ہوا ہے۔”

ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ عالمی سطح پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی آواز بلند کرتی رہی ہے، اور یہ خط مغربی دنیا، خاص طور پر برطانیہ کی دوہرے معیار کی پالیسیوں پر ایک اہم سوالیہ نشان ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.