ملک کے نامور بزرگ صحافی اور کالم نگار تجزئیہ کار سہیل وڑائچ آجکل ہر محفل میں موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں ۔ سیاسی شعور رکھنے والے دوست صاحبان کی ایسی کوئی محفل نہیں جس میں ان کا زکر کئے بغیر محفل اختتام پذیر ہو جائے ۔ ہمارے تو وہ آئیڈیل جرنلسٹ ہیں ،بہت دلچسپی سے انہیں پڑھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں ۔کمال کے صحافتی شعور و دانش کے مالک ہیں ۔ گو کہ میرے پسندیدہ صحافیوں کالم نگاروں تجزئیہ کاروں میں وہ تیسرے نمبر پر ہیں جس کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے لیکن طوالت کے پیش نظر بات صرف ان ہی کے اّن دو کالموں پر ہی کی جا سکتی جو انہوں نے برسلز میں فیلڈ مارشل عاصم منیر اور بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے لکھے ۔
یہ دونوں کالم وہ کنکر ثابت ہوئے ہیں جنہیں مار کر پُر سکوت ملکی سیاسی تالاب کی گہرائی کا اندازہ لگانا مقصود تھا سو وہ لگا چکے ہوں گے مگر اس کے ساتھ ہی ان کنکروں کو تالاب میں مارنے کے نتیجے میں اس سیاسی تالاب کی لہروں میں جو ارتعاش پیدا ہوا اس کی گونج آج ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود ملکی سیاسی فضاؤں میں ابھی تک صاف سنائی دے رہی ہے ۔
گو کہ اس گونج کا شور گزشتہ ایک ہفتے سے برپا ہے مگر ہم نے اس طرف توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا مگر جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس ارتعاش شدہ تالاب میں اُتر کر اٗن کنکروں کو نکال باہر پھینکا ۔۔۔۔۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ دال میں کچھ کالا کالا سا مگر تھوڑا سا ضرور موجود ہے جسے صاف کرنے کے لئے ڈی جی آئی ایس پی آر کو زحمت کرنا پڑی
لہزا قریبا” ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد آج اور اسی وقت ہم نے گوگل کو زحمت دی کہ برادرم سہیل وڑائچ صاحب کے وہ دونوں متنازعہ کالم ہمیں پڑھوا دے جس پر گوگل نے فوری طور پر ہماری خواہش پوری کر دی ۔
دونوں کالم ہم نے پڑھے تو خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کالموں میں بڑی احتیاط و مہارت دکھاتے ہوئے براہ راست کوئی ایسی بات یا فقرہ نہیں جو پیکا آرڈیننس کی گرفت میں آتا ہو ۔ان کالموں میں وڑائچ صاحب کے چالیس سالہ صحافتی تجربے کی جھلک ہمیں بڑی صاف نظر آ گئی ، داد دیتے ہیں وڑائچ صاحب کو کہ سانپ بھی مار دیا اور لاٹھی ( یعنی خود کو ) بھی بچا لی ۔
کچھ بھی نہ کہا
اور کہہ بھی بھی گئے
مگر اسی کے ساتھ ہم ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف جو ہمہ وقت فوج کی موثر و جاندار ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں ٹی وی سکرینز پر ، کو بھی ہم داد دئیے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے کہ کمال مہارت اور باریک بینی سے تالاب کی گہرائی میں چُھپے مضمرات کو بھانپ گئے اور فیلڈ مارشل صاحب سے وڑائچ صاحب کی فرضی ملاقات کی تردید کر دی بلکہ میڈیا کو آئندہ کے لئے خبردار بھی کر دیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کالم میں گو کہ سہیل وڑائچ صاحب نے فیلڈ مارشل صاحب سے ملاقات کا بار بار ذکر کیا مگر اس ملاقات کی کوئی تصویر وہ جنگ یا جیو میں دکھا نہیں پائے جس سے ملاقات واقعی مشکوک ہو گئی ہے اسی لئے اس ملاقات کی ڈی جی آئی ایس پر آر کی طرف سے تردید کی گئی ہے جو درست معلوم ہوتی ہے اور حیران کن امر یہ کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے تردید کے بعد وڑائچ صاحب کو اپنی صفائی میں ملاقات کی تصویر میڈیا کو دے دینی چاہئے تھی جیسے وہ کسی اوپن جگہ پر کھنچی گئی تصویر وائرل کر چکے ہیں مگر وہ ملاقات کی تصویر میڈیا کے سامنے پیش نہ کر سکے ، علاؤہ ازیں جہاں تک
رہی بات فیلڈ مارشل صاحب کے ساتھ تصویروں والی تو وہاں تقریب میں موجود ہر بندے سے فیلڈ مارشل صاحب نہ صرف ملے بلکہ تصویریں بھی بنائیں ,اگر فیلڈ مارشل صاحب سے کھنچوائی گئی تصویروں کو لے کر وڑائچ صاحب نے کوئی ” خاص ” تاثر دینا چاہا ہے

تو یہ کم ازکم وڑائچ صاحب کے صحافتی مقام و رتبے کے شایان شان نہیں ، انہیں اپنے کیرئیر کا خیال رکھ کر آگے بڑھنا چاہئے نا کہ فرضی اور من گھڑت خبر یا تجزئیہ کر کہ ملک کے سینئیر ترین اور چوٹی کے لکھاریوں سے سبقت لینے جانے کی افسوس ناک ریس لگائی جائے۔
وڑائچ صاحب کی فیلڈ مارشل صاحب سے مبینہ ملاقات کی خبر کا تجزئیہ کیا جائے تو اس میں بڑی آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس فرضی خبر کا مقصد بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے مائینڈ سیٹ کا اندازہ لگانا مقصود تھا اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہی انہوں نے اپنے ایک زاتی دوست کے ہمراہ بیلجئم کے شہر برسلز تک کا سفر کیا ۔ لہذا یہ حقیقت اب سامنے آ چکی ہے کہ وڑائچ صاحب کی اس کہانی کا محور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی راہ ہموار کرنے کے سوا اور کچھ نہیں تھا اور خوامخواہ اسٹیبلشمنٹ کو اس میں گھسیٹا گیا جو غیر جانبدارانہ اور دیانتدارانہ صحافت کے زریں اصولوں کی نفی کرتی ہے۔
نتیجہ یہ کہ جہاں اس کہانی میں وڑائچ صاحب بانی پی ٹی آئی کو معافی تلافی کے مشورے دیتے تھکے نہیں وہاں اب حالات انہیں قومی اداروں سے معافی تلافی کے مشورے دے رہے ہیں تا کہ پیکا آرڈیننس کی تلوار ان کے سر سے ہٹ سکے ۔ ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ اتنے پرانے تجربہ کار سینئیر موسٹ صحافی سے ایسی سٹوری کیسے نکل گئی جو فیک نیوز کا روپ دھار چکی ہے اور جو پیکا آرڈیننس کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے ۔ تاہم اس سب کے باوجود ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے توقع اور امید ہے کہ درگذر سے کام لیا جائے گا ، غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے جو قابل معافی قرار پاتی ہے ،اذ راہ تفنن وڑائچ صاحب بھی تو بانی پی ٹی آئی کو معافی تلافی ہی کا مشورہ دے رہے تھے اپنے ان کالموں میں ،
یہ الگ بات ہے کہ اب خود انہیں معافی تلافی کی طرف آنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ۔ سو معاملات کی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
یہاں موقع سے فایدہ اٹھاتے ہوئے اتنا ضرور کہنا چاہ رہے ہیں کہ سہیل وڑائچ صاحب کو یوں خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے اور اپنے موقف کی وضاحت کرنی چاہئے ،
ہم نے تو ان کا موقف لینے کے لئے دو بار ان کا نمبر ملایا لیکن ان کا نمبر بند چلا آرہا تھا ۔
