ہدایت کار اور اداکار داور محمود نے ایک انٹرویو کے دوران انکشاف کیا ہے کہ اداکار حمزہ علی عباسی کو ابتدائی طور پر اداکاری کا موقع ذاتی مفاد کے تحت دیا گیا تھا، نہ کہ ان کی اداکاری کی صلاحیت کی بنیاد پر۔ ان کے مطابق حمزہ علی عباسی کو اس وقت ایک تھیٹر میں کاسٹ کیا گیا، جب ہدایت کار شاہ شربیل کو حمزہ کے والد کی جانب سے ایک فارم ہاؤس مفت رہنے کے لیے ملا۔ داور محمود کا دعویٰ ہے کہ اس فائدے کے بدلے ایک اور اداکار کو نکال کر حمزہ کو کردار دے دیا گیا، حالانکہ وہ اس کردار کے لیے موزوں نہیں تھے۔
داور نے اپنے کیریئر کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ محض 16 برس کی عمر میں لاہور سے کراچی پہنچے، جہاں ان کی ملاقات معروف لکھاری انور مقصود سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ جب پہلی بار انور مقصود کے گھر پہنچے تو وہ سو رہے تھے، اور ان کی اہلیہ نے انہیں جگایا۔ انور مقصود نے انہیں بے دلی سے کہا کہ بعد میں آنا، جس پر اگلے دن وہ دوبارہ ان سے ملنے پہنچ گئے۔ اس جذبے سے متاثر ہو کر انور مقصود نے انہیں اپنے تھیٹر "پونے چودہ اگست” کا حصہ بنایا، جو داور کا پہلا پروجیکٹ تھا۔
داور محمود کا کہنا تھا کہ ابتدا میں ان کے پاس شناختی کارڈ تک نہیں تھا، اور ان کا بینک اکاؤنٹ ’ب‘ فارم پر کھولا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے انور مقصود کے ساتھ کئی اور تھیٹر پراجیکٹس کیے اور شہرت حاصل کی۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ لاہور میں انہوں نے شاہ شربیل کے ساتھ کام کیا، جو اپنے کیریئر کے اختتام پر صرف فائدے کے بدلے کاسٹنگ کیا کرتے تھے۔ داور کا کہنا ہے کہ وہ حمزہ علی عباسی کو تھیٹر اداکار تسلیم نہیں کرتے، چاہے دنیا انہیں تھیٹر سے وابستہ سمجھے۔
اس بیان کے بعد شوبز انڈسٹری میں اقربا پروری، ذاتی مفاد اور کاسٹنگ کے غیر منصفانہ طریقوں پر ایک نئی بحث شروع ہونے کا امکان ہے۔
Recover your password.
A password will be e-mailed to you.