اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں 200 اور 201 یونٹس پر بجلی کے بلوں میں واضح فرق کا معاملہ زیرِ بحث آیا، جس پر اراکین نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔
اجلاس کی صدارت کمیٹی چیئرمین محمد ادریس نے کی، جس میں اراکین نے بجلی کے مہنگے نرخوں اور عوام کو درپیش مشکلات پر سخت سوالات اٹھائے۔ رکن قومی اسمبلی رانا سکندر حیات نے کہا کہ عوام پوچھتے ہیں بجلی کب سستی ہوگی؟ کچی آبادیوں اور پرانی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بجلی کنکشن تک موجود نہیں، نتیجتاً بجلی چوری عام ہو چکی ہے۔
وزیر برائے پاور ڈویژن، اویس لغاری نے جواب دیا کہ بجلی کے کنکشن تبھی دیے جا سکتے ہیں جب مقامی اتھارٹی باقاعدہ درخواست دے۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کا استعمال کم ہونے کی وجہ سے نرخ زیادہ ہیں، اگر کھپت بڑھے تو نرخ کم کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ بجلی چوری کا تخمینہ 250 ارب روپے سالانہ ہے، نہ کہ 500 ارب۔
رکن اسمبلی انور تاج نے 200 اور 201 یونٹ پر بلوں میں فرق کا معاملہ اٹھاتے ہوئے سوال کیا کہ صرف ایک یونٹ اضافے سے بل میں کئی گنا اضافہ کیوں ہو جاتا ہے؟ رانا سکندر نے کہا کہ لائف لائن صارفین کو 200 یونٹ تک تقریباً 5000 روپے کا بل آتا ہے، مگر 201 واں یونٹ استعمال کرنے پر بل اچانک 15000 روپے ہو جاتا ہے، اور صارف آئندہ چھ ماہ تک سبسڈی سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔
جواب میں وزیر توانائی نے کہا کہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو 80 فیصد رعایت دی جا رہی ہے، اور حکومت عوام کو مزید ریلیف فراہم کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔