تازہ ترینکالمز

17 رمضان المبارک معرکہ بدر اسلام کی پہلی فتح

تحریر؛-محمد الطاف لاھور

 

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ھے ابھارا

اللہ کو ہے پامردی مومن پہ بھروسہ

ابلیس کو ھے یورپ کی مشینوں کا سہارا

تاریخ اسلام میں جنگ بدر کو ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ جنگ 17 رمضان المبارک 2 ہجری (13 مارچ 624ء) کو مدینہ کے قریب بدر کے مقام پر مسلمانوں اور مکہ کے کفار قریش کے درمیان لڑی گئی۔ یہ پہلی بڑی جنگ تھی جس میں مسلمانوں نے انتہائی کم وسائل کے باوجود ایمان، اتحاد، اور حکمت عملی کی بدولت پر شاندار فتح حاصل کی
ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کو مکہ کے مشرکین کی طرف سے مسلسل خطرات کا سامنا تھا۔ قریش نے نہ صرف مسلمانوں کو مکہ میں ظلم کا نشانہ بنایا ھوا تھا بلکہ مدینہ میں بھی ان کے خلاف سازشیں جاری تھیں گویا کہ مسلمانوں کے اوپر زندگی تنگ کر دی گئی تھی نہ وہ مکہ میں صحیح طرح سے زندگی گزار سکتے تھے اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے باوجود مدینہ میں مسلمانوں کے لیے کوئی سکون تھا

سروری زیبا فقط اس ذات ب ے ہمتا کو ھے

حکمراں ھے اک وھی باقی سب بتان آزری

معاشی طور پربھی قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا مسلمانوں کے لیے دفاعی اقدام تھا۔ جب حضور ﷺ کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک بڑا تجارتی قافلہ (جس کی قیادت ابوسفیان کر رہے تھے) شام سے واپس آرہا ہے، تو آپ ﷺ نے 313 مجاہدین کے ساتھ اسے روکنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، قافلہ راستہ بدل کر بچ نکلا، اور قریش نے اپنے 1,000 سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔

جنگ بدر میں نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف سے بہترین حکمت عملی اختیار کی گئی اور تمام صحابہ کرام کی رائے شامل کی گئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کہ جذبہ شہادت سے واقف تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی خواہش کے مطابق جنگ کی حکمت عملی تیار کی جنگ کی تیاری میں
مسلمانوں کا لشکر تعداد اور ہتھیاروں کے لحاظ سے انتہائی کمزور تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا ہتھیار ایمان اور اللہ پر توکل تھا۔ حضور ﷺ نے جنگ سے پہلے صحابہ کرام سے مشورہ لیا، جو جمہوری روایت کی پہلی مثال تھی۔ آپ ﷺ نے میدان جنگ میں پانی کے کنوؤں پر قبضہ کرکے اور ریتلی ٹیلوں پر تیر اندازوں کو تعینات کرکے دفاعی حکمت عملی اپنائی۔

جنگ کے آغاز میں اسلامی لشکر نے "یٰا ایھا النبی حرض المؤمنین علی القتال”

(اے نبی! مومنوں کو جنگ پر ابھاریے) کی صدائیں بلند کیں۔ تین مرتبہ انفرادی مبارزت ہوئیں، جس میں حضرت علی، حضرت حمزہ، اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہم نے مشرکین کے سرداروں کو ہلاک کیا۔ اس کے بعد عمومی جنگ شروع ہوئی۔

جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کیا ڈرتے ہیں جگر

جب وقت شہادت اتا ھے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں

قرآن پاک میں اللہ نے فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کا ذکر کیا "إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ

(سورہ الانفال: 9)

– اس جنگ کے نتیجے میں کفار کو اتنی بڑی شکست ہوئی کہ اسے اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے فتح مبین قرار دیا کفار کی اس قدر کمر توڑ دی کہ ان کے اتنے بڑے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے کہ دوبارہ سے انہیں سنبھلنے کے لیے وقت درکار تھا وہ اپنے زخم ہی چاٹتے رہ گئے کہ اتنے کم تعداد میں مسلمانوں نے ہمیں کس طرح سے شکست سے دوچار کر دیا- یہ دراصل اللہ تعالی کی طرف سے کفار کے اوپر ایک غلبہ اور طاقت کو ثابت کرنا مطلوب تھا کہ حق ہمیشہ غالب رہے گا باطل مغلوب رہے گا معاملہ تعداد سے نہیں جو بھی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہوگا فتح ان شاءاللہ ان کا مقدر ہوگی باطل ہمیشہ مغلوب ہی رہے گا وقتی طور پر باطل ظلم جبر اور فسطائیت کے بل بوتے پر نظام کو چلا سکتا ہے مگر بالاخر اسے شکست سے دوچار ہونا ہوتا ہے کیونکہ حق ہی غالب ا کر رھتا ھے یہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے
– کفار کو نہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالی کی غیبی مدد شامل حال ہے ان کے پیچھے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طاقت ہے اس لیے کہ اللہ تعالی نے قران مجید میں فرما دیا تھا کہ میں نے رسولوں کو بھیجا ہی اس لیے ہے کہ وہ میرے دین کو غالب کر دیں گویا کہ اللہ تعالی کو غلبہ دین مقصود تھا
– جس کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی، جس میں مسلمان صحابہ صرف 14 شہید ھوئے
– جبکہ قریش کے 70 مشرکین بڑے بڑے سرداروں سمیت ہلاک ہوئے، جن میں ان کے سردار ابوجہل بھی شامل تھے۔
– جنگ بدر کی فتح کے نتیجے میں اللہ پاک نے مسلمانوں پر یہ بات ثابت کر دی کہ اگر تم ثابت قدر رہو گے میری بات پر یقین رکھو گے صبر و استقامت کا مظاہرہ کرو گے اگر تم کہو گے کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ گے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر ڈٹ جاؤ گے تو فتح تمہاری ہی ہوگی اس لحاظ سے مسلمانوں کو مدینہ کے اندر روحانی اور معنوی تقویت کا سبب بھی یہ جنگ ثابت ہوئی اور اس جنگ کی بدولت لوگوں کے دلوں کے اندر اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور یقین پختہ ہو گیا اور اب مسلمان ھر۔محاذ پر پورے یقین کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ اس کو رسول اس کے ساتھ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے وہ حق ہے اور ان شاءاللہ حق ہی غالب ا کر رہے گا یہی جذبہ در اصل فتح کا جذبہ ہے
– – اور یہ فتح مسلمانوں کے لیے روحانی اور سیاسی طاقت کا نشان بنی اس جنگ نے ائندہ کے لیے ہر مسلمان کو قوت اور طاقت عطا کی کہ وہ حق کے ساتھ جب بھی کھڑا ہوگا تو فتح اسے نصیب ہوگی اور وہ ایمان کی حد تک اس پر یقین رکھتا ہے یہی مسلمانوں کا طرہ امتیاز ہے
باطل کی شکست کے نتیجے میں مدینہ میں استحکام پیدا ھوا ظلم اور جبر کا دور ختم ہوا بڑے بڑے قریش کے سرداروں کے ذہن کے اندر جو سرداری کا رعب تھا وہ ٹوٹا اور انسانیت کے احترام کی طرف قدم بڑھا پوری انسانیت کو برابری کا احساس ہوا
جنگ بدر کے بعد مدینہ میں اسلامی ریاست مضبوط ہوئی اور قبائل اسلام کی طاقت کو تسلیم کرنے لگے۔ انسانیت کو عزت اور احترام ملنا شروع ہوا

دینی اور اخلاقی پہلو سے بھی یہ فتح مبین تھی اس لئے کہ حضور ﷺ نے قیدیوں کے ساتھ انسانیت پر مبنی سلوک کا حکم دیا، جو جنگی اخلاقیات کا بہترین نمونہ تھا۔
توحید کی فتح یہ جنگ حق و باطل کے درمیان ایک واضح امتیاز ثابت ہوئی۔

جنگ بدر محض ایک لڑائی نہیں بلکہ ایمان، صبر، اور حکمت کی داستان ہے۔ اس جنگ نے نہ صرف مسلمانوں کو حوصلہ دیا بلکہ تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔ آج بھی یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ پر بھروسہ اور منصفانہ جدوجہد ہر مشکل پر قابو پا سکتی ہے۔

"وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا”** (سورہ آل عمران: 120)
(اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔)

اور اب یہ تو سارے واقعات صحابہ کرام کی زندگی کے حوالے سے تھے ھم کیا ھیں کیسے مسلمان ھیں کیا ہماری بھی کوئی اس طرح کی ذمہ داری ہے موجودہ حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے تو اس سلسلے میں اقبال نے کہا تھا کہ

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

چمن کے مالی موافق بنا لیں شعار اپنا

چمن میں ا سکتی ہے روٹھی بہار اب بھی

ہماری مسلمان قوم ظلم جبر اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے حالات کے سامنے شائید کھڑی ہونے کے لیے تیار نہیں ہے مسلمان قوم کا یہ عمل بہت ہی بزدلانہ اور غیر سنجیدہ ہے ہر حکومت اور حکمران جو چاہیں کریں ہم حق کی اواز بھی اٹھانے کے لیے تیار نہیں گویا کہ ایمان ہمارے اندر رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے

حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم میں سے جو کوئی دیکھے برائی کو اس کا فرض بنتا ہے ہاتھ سے روکے اگر طاقت ہے اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں ہے تو پھر اس کو زبان سے برا کہے اگر زبان سے بھی برا کہنے سے ڈر اور خوف میں مبتلا ہے تو پھر دل میں برا منائے یہ ایمان کے رائی کے دانے کے برابر ہونے کی دلیل ہے یعنی دل کے اندرایمان نہ ہونے کی نشانی ہے

اور ہم ہیں کہ ماحول جیسا بھی ہو ہم اس کے سامنے کھڑا ہونا تو دور کی بات ہے بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور نظام اور حکمران جیسے چاھیں حکمرانی کرتے جائیں صحیح ہو یا غلط ہم خاموشی سے قبول کیے ہوئے ہیں
اور غلط نظام کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں اور پھرجب بھی 17 رمضان المبارک اتا ہے تو ہم ببانگ دہل یوم بدر کے طور پر اسے مناتے ہیں بڑے بڑے مضمون لکھتے ہیں اور بڑی بڑی مثالیں پیش کرتے ہیں جنگ بدر کی جب باطل کو شکست سے دوچار ہونا پڑا
اور اپنے ملک کے موجودہ حالات اور ظلم جبر اور باطل نظام کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے جس کی وجہ سے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جاتے ہیں انصاف ڈھونڈنے سے بھی اس معاشرے میں نہیں مل رہا

بقول شاعر

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن

ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

گویا کہ ہم خود سب حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کرتے رھتے ہیں جب ہم ان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے بھی گریز کرتے ہیں جو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمیں حکم ہے اور پھر ہم دعوے کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے پابند ہیں مگر ہم اس پابندی کو پورا نہیں کرتے
ہمارے اندر نہ جرات ھے نہ ہمت ھے ہم اندر سے خوف زدہ ھیں مسلمان کا تو شیوہ یہ ھوتا ھے کہ جو برائی دیکھے اس کے سامنے کھڑا ہو جائے کلمہ حق جابر سلطان کے سامنے کہے لیکن ہم نے شاید قومی سطح پر حالات سے کمپرومائز کر لیا ھے اسی لیے ملک کے اندر استحکام نہیں ا رہا
معرکہ بدر اسلامی تاریخ کا وہ معرکہ ہے جس کے سامنے باطل سرنگوں ھوا دیکھا جائے تو تعداد کے لحاظ سے بدر میں صحابہ کرام کی تعداد 313 تھی اور مقابلے میں پورا مکہ ہر ہر خاندان کے لوگ اور بڑے بڑے سرداران قریش اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مسلمان اتنی کم تعداد میں ہونے کے باوجود کفار کو شکست سے دوچار کر دیں گے لیکن بات صرف یہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بتا دیا تھا کہ اللہ کی طرف سے مدد ہے حق کے ساتھ حق ہمیشہ غالب اتا ہے باطل کو ہمیشہ جانا ہوتا ہے جو ڈانٹ کے کھڑا رہتا ہے فتح اسے ہی نصیب ہوتی ہے اور جس کے پاؤں اکھڑ جائیں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا تو اللہ پاک نے مسلمانوں کو حق کی بدولت حق پر کھڑے ہونے کی بدولت ثابت قدم رکھا اور بدر میں تاریخی فتح سے ہمکنار کیا

جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کیا ڈرتے ہیں جگر

جب وقت شہادت اتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں

کیا 17 رمضان المبارک یوم بدر ہم بطور یادگار ہی منائیں گے ھم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھنا یا پھر عملی طور پر شاید ھم میدان عمل میں اترنے کے لیے ہم تیار ھی نہیں
کیونکہ ہم سب کی وابستگیاں مفادات کی وابستگیاں ہیں ہم بطور قوم منقسم ہیں ہم مذہبی طور پرمسلکوں میں تقسیم ہیں ہم سیاسی طور پہ جماعتی تقسیم رکھتے ھیں اس لیے ہماری سیاسی وابستگی اڑے ا جاتی ہے سچ کے لیے اواز بلند کرنے کے لیے تیار نہیں ہم گروہوں اور بردریوں میں تقسیم ھیں اور یہ تقسیم ہمیں کہاں سے کہاں لے کر جا رہی ہے ہم ہجوم ہیں قوم کی طرف نہیں ا رھے ہمارے اتحاد کی بنیاد صرف ایک ہی چیز تھی اسلام اسلام کے نام پر ہی یہ پاکستان وجود میں ایا تھا مسلم قومیت ھی ہمیں اکٹھا کر سکتی ہے اسے ہم بھول گئے ہیں

بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے

حالات سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلا دیتی ہے حکمران کی سامری اسے

جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کو شاید ہماری قوم تسلیم کرنے جا رہی ہے اور شاید تسلیم کر چکی ہے کہ اب جو حکمران ہوگا وہ جو چاہے کرے گا اور وہ کر رہا ہے ہم خاموش رہیں گے مرنے والی امتوں کے یہی اسباب تھے شاید ہم بھی من حیث القوم یا امت تباھی اور بربادی کی طرف جا رہے ہیں اس کی وجہ سے نہ ہمارے ملک کے اندر استحکام ہے اور نہ ہماری معیشت اگے بڑھ رہی ہے اور نہ ہی امن و امان ھے ملک میں انتشار ہے انتشار کی وجہ یہی جبر ہے جس کے خلاف ہم کھڑا نہیں ہو پا رہے

ھم کب تک خاموشی سے یہ سب کچھ برداشت کرتے رہیں گے اس لیے کہ ہم عام عوام ہیں اور وہ حکمران ہیں حکمران جو چاہیں کرتے رہیں رعایا کی یا عوام کی کوئی حیثیت نہیں اس لیے کہ ھم بزدل ھیں آواز بھی نہی اٹھا سکتے آج تک دنیا میں یہ نہی ھوا کہ تمھاری آواز ھی بند کردی جائے
یہ سعادت بھی ھمارے ملک پاکستان کو حاصل ھوئی ھے جس نے دنیا کے سامنے ایک اسلامی فلاحی مملکت کا نقشہ پیش کرنا تھا جس نے پاکستان کو ایک اسلامی ملک کے طور پر اور ایک مسلم قوم کے طور پر پیش کرنا تھا ہم اس میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں
اج یوم بدر کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہمیں ہر سطح پر حق اور سچ کے لیے اواز اٹھانا ہوگی تب ہی ملک میں استحکام ائے گا
عوام ہمت کریں بولیں حق کی اواز اٹھائیں میدان عمل میں اتریں جبر اور فسطائیت کیخلاف باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں حق اور ساتھ چار انصاف اور عدل پر مبنی نظام کو قائم کرنے میں اپنا عملی کردار ادا کریں اور اپنے حقوق حق کیلئے آواز تو بلند کریں یہ تو اظہار رائے انسانی حقوق کا بنیادی حق ہے

صدائے حق کی جرات سے تو زندہ کر زمانے کو

تیرے ساتھ دنیا میں ہزاروں دل دھڑکتے ہیں

ہم اپنے حقوق لے سکتے ہیں
مگر ہم اس کے لیے کھڑا ہونے کو تیار نہیں ہوتے ہم تو جبر کے خلاف بولنا بھی نہیں چاہ رھے

افسوس صد افسوس کہ شاہین نہ بنا تو

دیکھے نہ تیری انکھ نے فطرت کے اشارات

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے

ھے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

کمزوری انسان کو موت کے منہ میں لے جاتی ہے اور ہم اپنے اس معاملے میں کمزوری دکھا رہے ہیں کہ ہم حکمرانوں کے سامنے بات نہیں کر سکتے جبکہ اسلام کا سب سے بڑا جو معیار ہے وہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق ہے اس کے بغیر تو ہم مسلمان ہی نہیں کہلا سکتے

شائید ھم اپنے حقوق لینا ہی نہیں چاہتے جو قوم اپنے حقوق کے لیے کھڑی نہیں ہوتی اس قوم کا یہی انجام ہوتا ہے

چوہدری رحمت علی نے حصول پاکستان کی جد و جہد شروع کی تو کہا تھا کہ خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جو قوم اپنی خود حالت بدلنے کے لیے کھڑی نہ ہو سکے بس یہی انجام ہوگا ہم جیسی قوموں کا

اج پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ہمیں اپنے اکابرین علامہ اقبال قائد اعظم اور چوہدری رحمت علی کے خوابوں اوران کی باتوں پر غور کر لینا چاہیے کہ انہوں نے کس طرح سے اس پاکستان کو حاصل کیا تھا اس پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں جو عناصر کار فرما تھے اس میں سب سے بڑا عنصر اسلام کا تھا کہ ہم نے پوری دنیا کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ ہم پاکستان بطور مسلمان ملک پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ حاصل کریں گے اور اس ملک کے اندر ہم اسلامی فلاحی مملکت کا خواب پوری دنیا کو دکھائیں گے اور اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے ایک اسلامی فلاحی ریاست کا نقشہ رکھیں گے اور ہم ازاد ملک کے طور پر اللہ اور اس کے رسول کے نظام کا نفاذ کریں گے ہم نے یہ ساری چیزیں وعدے کے طور پر پوری دنیا کے سامنے رکھی تھیں
ہمارے ابا و اجداد نے اپنا تن من دھن گھر بار سب کچھ ہندوستان میں چھوڑا اسی کلمے کی خاطر چھوڑا اسی جذبہ جہاد کی خاطر چھوڑا تو کیا ہم اس لیے اس ملک میں رہ رہے ہیں کہ یہاں پر بھی وہی باطل کا نظام یہاں پر بھی وہی جبر اور ظلم اور اس سے بھی بدتر نظام کے ساتھ زندگی گزاریں
یہاں لوگوں کے حقوق کا کسی کو کوئی خیال نہ ہو نہ عدالت نہ ہو نہ ریاست ہو نہ کوئی حکمران اس کی طرف سوچ رہا ہو ایسے حالات میں پاکستانی قوم ہجوم کی طرف ہی بڑھتی جا رہی ہے ہمیں اپنے اپ کو ٹھیک کرنا ہوگا اور اپنے حکمرانوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھنا ہوگا کہ ہم مسلمان تھے مسلمان ہیں اپ نے ہمیں کہاں لا کر کھڑا کر دیا 75 سال سے اس ملک کے اندر بار بار تجربات کیے جا رہے ہیں اور ہر تجربہ اور ناکامی کا منہ دیکھ رھے ھیں

ہمیں متحدو متفق ہو کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اپنے اپ کو قوم ثابت کرنے کے لیے میدان عمل میں ہر ایک کو اترنا ہوگا

افراد کے ہاتھوں میں ہے ملت کی تقدیر

ہر فرد ہے
ملت کے مقدر کا ستارہ

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے جن ہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا دریا پہاڑ ان کی ہیبت رائی

ہمیں یوم بدر سے یہ سبق ملتا ہے کہ کوئی بھی قوم جب تک حق پہ کھڑی نہ ہو گی اس وقت تک وہ اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتی
ہماری دینی اور مذہبی جماعتوں کا تو حال ہی یہ ہے کہ انہوں نے تو بس یہی کہا ہے کہ اپ نماز روزہ حج زکوۃ میں اپنے اپ کو مگن رکھیں ماحول اور معاشرے میں کیا ہو رہا ہے کسی کو اس سے کوئی سروکار ھی نہیں ایک وقت تھا کہ ہماری مسجد کا امام جو ہے وہ پورے گاؤں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھتا تھا کہ کون صحیح کر رہا ہے کون غلط کر رہا ہے اور کیا کر رہا ہے کون اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابقزندگی گزار رہا ہے کون اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے رو گردانی کر رہا ہے اج تو ہمارے اندر یہ جرات بھی باقی نہیں رہی
اج تو ہم برے کو برا کہنے سے بھی ڈرتے ہیں اور یہی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے

چلتے ہیں دبے پاؤں کہ کوئی جاگ نہ جائے

غلامی کے اسیروں کی یہ خاص ادا ہے

جو قوم حق بات پہ نہ ہو یکجا

اس قوم کے حاکم ہی فقط اس کی سزا ھیں

مسلمان تو اللہ کی حکمرانی کے علاوہ کسی کا حکم مان ہی نہیں سکتا ہمیں بطور مسلمان زندہ رہنا ہے یا غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر زندگی گزارنی ہے فیصلہ ہمیں خود کرنا ہوگا

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button