لائیوسٹاک اورڈیری کے حوالے سے فرانس میں بین الاقومی چارروزہ کانفرنس
چارروزہ کانفرنس 32ویں ایڈیشن میں 1لاکھ 15ہزارمہمانوں کے علاوہ 90ممالک کے 5 ہزارسے زائدافرادخصوصی طورپرشریک ہوئے 24ممالک میں سے 51نامورصحافیوں نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی ۔ جن میںبھارت ، چائنہ ، سعودی عرب ، جاپان ، آسٹریلیا، انگلینڈ، آئرلینڈ، چلی ، برازیل ارجنٹائن، کینیڈا، امریکہ اورپاکستا ن سے راقم کویہ اعزازحاصل ہوا
(رپورٹ :محمدعقیل انجم)
تحقیق اورسیروسیاحت راقم کی زندگی کاایک اہم جزوبن چکاہے ۔ دنیابھرمیں ہونے والی کانفرنسوںمیں جاناتو شایدہی نصیب ہولیکن ان کانفرنسوںکااحوال اوراس کے فوائدکے بارے میں معلومات اکٹھی کرنااوراسے قارئین تک پہنچانے کیلئے اپنے تئیں بھرپورکوشش کرنامیرامشغلہ ہے ۔ماضی میں کئی ممالک کے دورے کرنے کاموقع ملاجن میں فرانس ، اٹلی ، ہالینڈ،مڈل ایسٹ کے ممالک شامل ہیں جن میں سیروتفریح کے علاوہ بہت کچھ سیکھنے کاموقعہ ملااوران تمام معلومات کوقارئین اوراپنے شعبہ میں دلچسپی رکھنے والوں تک پہنچانے میں بھی اپنابھرپورکرداررہاہے ۔ امسال بھی فرانس میںمنعقد ہونے والے سومٹ شومیں جانے کاموقعہ ملاجس کااحوال اورمفیدمعلومات قارئین کی نذرکرناضروری سمجھا۔
دنیااس وقت ہرکام کوجدیدانداز اورضرورت کے مطابق پوراکرنے کیلئے کوشاں ہے لیکن وطن عزیزمیں کسی بھی شعبہ کوضروری معلومات اوربنیادی تربیت کے بغیرہی سرانجام دیاجاتاہے جس کی وجہ سے اکثرسرمایہ کارنقصان سے دوچارہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرشعبہ میں ٹریننگ کی ضرور ت ہے ۔ جس کاحکومتوں کے ساتھ ساتھ عوام کاادراک ہوناضروری ہے۔
فرانس کاحالیہ سفربھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا 2اکتوبرکی رات دوبجے جب ہرطرف سناٹاتھا،سڑکوں پر اکادکاگاڑیاں چل رہی تھیں ،اسلام آبادکے اکثرباسی نیندکی گہری آغوش میں چلے گئے تھے ،گلیوں اوربازاروں میں چوکیداروں کی سیٹیاں اپنی موجودگی کااحساس دلارہی تھیں ایسے میں اپنے اگلے مشن پرروانہ ہونے کے لیے تیارکھڑاتھا رات کے اس آخری پہرمیں اسلام آبادایئرپورٹ پرپہنچاتوبورڈنگ کی لائن میں لگے کئی لوگ اپنی باری کاانتظارکررہے تھے ۔ وطن عزیزمیں لائنیں یاقطاریں اب قومی نشان بن چکی ہیں ہرطرف لائنیں ہی لائنیں دکھائی دیتی ہیں،تندورکے باہر لائن سے لے کرایئرپورٹ تک لمبی لائنیںدیکھ کردل کرچی کرچی ہوجاتاہے ۔میرے جیسے بے صبرے اپنی افتادطبعی کی وجہ سے اکثرلائنیں ڈسٹرب کردیتے ہیں ۔
ائیرپورٹ پر طویل اورصبرآزماانتظارکے بعدبورڈنگ کرانے میں کامیاب ہوا توچہرے پرایسی خوشی پیداہوئی کہ جیسے میں نے کوئی بہت بڑامعرکہ سرکرلیاہے ،واقعتایہ ایک بڑامعرکہ تھا جسے میں نے خوش اسلوبی سے طے کرلیاتھا ۔پاسپورٹ ، ویزہ اورضروری کارروائی کے بعدمزیدانتظارکی سولی پرچڑھناپڑااس کے بعدہی جہازکی سیڑھی پرقدم رکھنانصیب ہوا ۔ ایئرپورٹ سے جہازتک جانے کے لیے یہ چھوٹاسافاصلہ بھی کافی انتظارکے بعدکٹتاہے ۔ جہازپرپہنچاتوایئرہوسٹس سے پہاڑی زبان میں بات کرکے اپنی سیٹ سے متعلق پوچھاجومسکراکرمجھے گائیڈکرنے لگی تومیں نے ازرائے مزاح کھڑکی(سائیڈ) والی سائیڈ مانگنے کی سفارش کرڈالی اورطبیعت کی خرابی کاعذرپیش کیاجوائیرہوسٹس نے قبول کرلیا اور مسکراتے ہوئے کھڑکی والی سیٹ دینے کیلئے تگ ودومیں لگ لگی ۔ ایک دولوگوںسے کامیاب مذاکرات کے بعدایئرہوسٹس مجھے کھڑکی والی سائیڈبٹھانے میں کامیاب ہوگئی تویوں لگاجیسے ایک اورمعرکہ میں نے اپنے نام کرلیاہے۔
جہازاڑنے ہی والاتھاکہ جہازکے عملے نے ایک ریڈرنگ کاکمبل میری طرف اچھالاجسے دیکھتے ہی آنکھوں پرنیندکاخمارچڑھ گیااورمیں یک دم سیٹ بیلٹ کھول کرنیندکی گہری آغوش میں چلاگیا۔ بحرین ایئرپورٹ پرپہنچاتولائوڈسپیکرکی آوازنے جگایااورسیٹ چھوڑکراپنازادراہ سمیٹااورباہرکی طرف لپکاجہاں ایک بارپرلائن کے عذاب سے گزرناپڑا۔مگریہ عذاب تھوڑی دیرکاہی ثابت ہوا کیوں کہ بحرین اوراسلام آبادایئرپورٹ میں کافی فرق دکھائی دیااورچندمنٹوںکی لازمی کارروائی کے بعدمیںباہرنکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
اب یہ منزل مقصودنہ تھی بلکہ 18گھنٹے کا ایک طویل پڑائوتھا ۔ یہ 18گھنٹے کئی دنوںپرمحیط لگتے ہیںکیونکہ سفرکی تھکاوٹ کے بعدسب سے بڑی نعمت آرام ہوتاہے جوبظاہردکھائی نہیں دے رہاتھا۔ ایئرپورٹ کے چاروں طرف نگاہ دوڑائی توکچھ کائونٹرخالی دکھائی دیئے جن پربیٹھے ہوئے چہروں سے آشنائی تونہ تھی لیکن بے تکلفی نے بہت مددکی اورانہیں ہوٹل میں جگہ دلانے کی درخواست کی ۔ عملہ نے بے تکلفی سے متاثرہوکرنہ صرف کمرہ دلانے میں کرداراداکیابلکہ ہوٹل عملہ کوہرطرح کاخیال رکھنے کی تلقین بھی کرڈالی ۔
18گھنٹے آرام نے ایک بارپھرفریش کردیااوراب اگلی منزل کی طرف جہازتیارتھالیکن لائن نہ ہونے کے برابرتھی جسے دیکھ کرمحسوس ہواکہ دنیااب لائنوںکے چکرسے نکل چکی ہے لیکن ہم ابھی تک لائنوںمیں کھڑے ہیں۔ پیرس ایئرپورٹ پر ہزاروںلوگ امیگریشن کے عمل سے گزرے لیکن محسوس بھی نہ ہوا۔ چھ گھنٹے سفرکے بعدپیرس ایئرپورٹ پہنچے جہاں پہلے سے میرے دوست بازوئوں پھیلائے دیدہ دل راہ فراش کیے ہوئے کھڑے تھے ۔ ائیرپورٹ سے باہرآتے ہی ایک نئی دنیامیرے انتظارمیں تھی ۔یہ پیرس کی صبح تھی اورآٹھ بجے تک سورج طلوع نہیں ہواتھا۔مگریہاں کے لوگ اپنے دفاتراورکاموں پر چھ بجے ہی پہنچ جاتے ہیں۔ میزبان نے ٹرین تک چھوڑااوروہاں سے ریلوے سٹیشن پرٹی وی جی پربیٹھ کرلیون پہنچنے میں تین گھنٹے لگے وہاں سے ایک بارپھرٹرین تبدیل کی اوردوگھنٹے کے سفرکے بعدکلیری مونٹ شہرپہنچے ۔ کلیری موڑپہنچ کرٹرین سے اترنے کے بعدپتہ چلاجیسے سارافرانس ریل پرہی سفرکرتاہے ۔
یہ وہ شہرتھا جہاں SOMMET DE L’ELEVAGE نے چار روزہ کانفرنس کااہتمام کیاتھا اسی کلیری مونٹ سٹی میں کانفرنس میں شرکت کیلئے دوسوسے زیادہ ممالک کے مندوبین شرکت کیلئے آئے تھے ۔جن کی زبانیںالگ ، ثقافت الگ ، کھاناپینا، رہناسہناہرچیزمختلف تھی ۔ہم جس انگریزی کولازمی مضمون کے طورپرپڑھتے پڑھاتے ہیںسارے یورپ میںایک فیصدبھی نہیںبولی جاتی ۔ جتنی بھی انگریزی یادکرکے فرانس گیامگروہاں اکادکاانگریزی بولنے والے ملے ۔شہرکے وسط میں ہماری رہائش کابہترین انتظام کیاگیاتھایہاں مختلف ممالک کے صحافیوں ،مندوبین ،بزنس مینوں سے ملاقات ہوئی اورمختلف ایشوزپرتبادلہ خیال ہوا۔ آرام کرنے کے بعداگلے دن میں اس ہال میں پہنچاجہاں اس بین الاقوامی کانفرنس کاانعقادکیاگیاتھا تووہاں کاماحول دیکھ کردل باغ باغ ہوگیا ۔
SOMMET DE L’ELEVAGE ۔کایہ 32واں ایڈیشن تھا جس میں 1لاکھ 15ہزارمہمان شریک تھے جن میں دنیاکے 90ممالک سے پانچ ہزارسے زائدافرادبھی شامل تھے جنھوں نے اس ایونٹ میں خصوصی طورپربھی شرکت کی اورمختلف نمائش کنندگان کی طرف سے 1,681سٹال لگائے گئے تھے ۔
یہ ایڈیشن لائیو سٹاک فارمنگ میڈیا کے لیے ایک کلیدی پلیٹ فارم تھاجس میں150 سیشن اور سمپوزیم منعقدہوئے۔یہ نہایت اہمیت کاحامل شوتھا یہی وجہ ہے کہ اس شومیں دنیابھرکی مختلف شعبوں سے وابستہ اہم ترین شخصیات کے درمیان 31اہم ترین ملاقاتیں بھی ہوئیں۔اس شوکی 150 گھنٹے کی لائیو کوریج نہایت متاثرکن تھی یہی وجہ ہے کہ اس اہم ترین پروگرام کی کوریج کے لیے دنیاکے 24ممالک میں سے 51نامورصحافیوں نے شرکت کی ۔ جن میںبھارت ، چائنہ ، سعودی عرب ، جاپان ، آسٹریلیا، انگلینڈ، آئرلینڈ، چلی ، برازیل ارجنٹائن، کینیڈا، امریکہ اورپاکستا ن سے راقم کویہ اعزازحاصل ہواکہ وہ اس بین الاقوامی شومیں نہ صرف شریک ہوکراپنے ملک کی نمائندگی کی بلکہ شوکے دوران خطاب میں لائیوسٹاک کے حوالے سے پاکستان کے تجربات کوبھی شرکااورٹیکنیکل افرادکے ساتھ شیئرکیا۔
SOMMET DE L’ELEVAGE یورپ کے نمبر 1لائیوسٹاک شو کے طور پر کام کررہا ہے اور موجودہ حالات میں اس کا نیا مرکزی موضو ع مویشیوں کی فارمنگ میں مدد کرنا ہے۔اور SOMMET DE L’ELEVAGE کی سیاسی جہت سال با سال مضبوط ہوتی جارہی ہے۔اس سال کے ایونٹ میں مارک فیسنیو، وزیر زراعت اور برونو لی مائیر کے دوروں سے واضح ہواکہ وزیر اقتصادیات اور خزانہ، لائیوسٹاک فارمنگ کواہمیت دے رہے ہیں اوراس شعبے سے وابستہ افرادکوترغیب بھی دے رہے ہیں۔
سیاسی طورپر جیسا کہ جیک شازلیٹ نے کہاکہ یہ 32 واں ایڈیشن متعدد فرانسیسی اور غیر ملکی اراکین پارلیمنٹ کی موجودگی سے نہایت اہمیت اختیارکرگیاہے ۔”، جیکس شازلیٹ، شو صدر، مزید کہتے ہیںکہ "نوجوان فارمرز کی اس شومیں شرکت ایک شاندار کامیابی ہے۔ فیبریس برتھن شو کے جنرل منیجر،”نے اس موقع پرکہاکہ اس سال کا ایونٹ غیر معمولی تھا، تعداد کے لحاظ سے اور کاروباری دونوں اعتبار سے یہ ایونٹ ترقی کی بلندیوںکوچھورہاہے۔ ”
میزبانوں نے مہمانوں کی تھکاوٹ ختم کرنے کے لیے شام کومیوزیکل نائٹ کااہتمام کیاتھا جس میں uvergne-Rhne-Alpes Region اور International Gala جیسے پروگرام شامل تھے شرکاء نے اس تفریحی پروگرام میں بھی بھرپورطریقے سے شرکت کی اورہرایک اپنے اندازمیں لطف اندوزہوا۔یہ ایک بہترین پروگرام تھا جس میں شرکاء کی دلچسپی کابہت ساساماں موجود تھا ۔
واکیزخطے کے صدرنے کہاکہ ۔”سمیٹ بلاشبہ وہ جگہ ہے جہاں لائیو سٹاک پالیسی میں بڑے مسائل کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ منتظمین سمیت ہمارے لیے بلکہ لائیو سٹاک میں شامل تمام لوگوں کے لیے بھی ایک اہم اعزازہے۔اس سال پالتو مویشیوں کی بہتر فارمنگ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔شرکاء اور نمائش کنندگان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ان لوگوں کے لیے حوصلہ افزا عنصر تھا۔بہترزراعت کے لیے پرعزم "SOMMET اہم اقتصادی، ماحولیاتی، علاقائی اور سماجی مسائل کے اہداف کے حوالے سے سرگرم عمل ہے ۔
ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس تھیم کی حمایت میں ایک بڑھتی ہوئی اور وسیع تحریک پالتو مویشیوں کے ساتھ ساتھ کاشتکاری نوجوان نسل کو اپنے مستقبل میں اچھی زندگی گزارنے میں مددگارثابت ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ برونو ڈوفائیٹ، ایسوسی ایشن فار دی پروموشن نے کہاہے میسیف سینٹرل (APRAMAC) میں زراعت مختلف ممالک سے 5,000 بین الاقوامی شرکاء ،90 ممالک کے 5,000 وزیٹر کے ساتھ غیر ملکی کسانوں کی شرکت اپنی مقبولیت کااظہار کرتا ہے ۔یہ اس بات کاثبوت ہے کہ بین الاقوامی نمائش کنندگان میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جارجیااس سال کا مہمان خصوصی تھاجس نے اپنی نمائندگی بہتراندازمیں کی۔ ان کی طرف سے لائیو سٹاک کی نمائندگی ایک بڑے وفد نے کی جو40 سے زیادہ فارمنگ سے وابستہ کسانوں اور صنعت کے نمائندوں پرمشتمل تھا۔ ان 4 دنوں کی خاص بات یہ تھی کہ شو کے پہلے دن ہی فرانسیسی اور جارجیا کے وزرائے زراعت مزیدتعاون پردستخط ہوئے جوکہ شوکی بیرون ملک بڑھتی ہوئی کامنہ بولتاثبوت ہے ۔
آج، SOMMET DE L’ELEVAGE ایک حقیقی طورپرباہمی روابط کاپلیٹ فارم بن چکاہے ۔ بینوئٹ ڈیلالوئے اس مرتبہ تیس یا اس سے زیادہ فارم اور زرعی صنعتی مقامات کے دورے جوکہ خاص طور پر ہمارے بین الاقوامی کاروبار ی افراد کواس پروگرام کی اہمیت اجاگرکرتاہے۔ یہ دورے اس اعتبارسے منفردتھے کہ مویشیوںکے فارم، تحقیقی ادارے، مذبحہ خانے غیر ملکی وفود فرانس کے لائیوسٹاک کے شعبہ کی جدیداندازمیں کام کرنے کے طریقوںسے اگاہ ہوئے ۔ فرانسیسی مویشیوں کی صنعت کاروں کوہر سال اسلئے بے تابی سے اس شوکا انتظارہوتاہے۔
شوکے دوران ایک خوبصورت شام جس میں تقریبا 300 لوگوں نے شرکت کی۔دی لیموزین، فرانس کا نمبرون برآمد شدہ گائے کے گوشت کی نسل خاصی اہمیت کاحامل ہے۔ اس سال کے شو میں جانوروں کا معیار بہترین تھا،۔غیر ملکی کسانوں کے ذریعہ فرانسیسی محنت کشوں کا جیسا کہ ہرڈ کے صدر اولیور لاسٹناس نے فرمایا ،بران سوئس بہترین مویشیوں کی دوسری نسل ہے۔سومیٹ جیسا کہ بی جی ایس بران جینیٹک سروسز کے ڈائریکٹر اولیور بلوٹ بتاتے ہیں، "8 بین الاقوامی وفود جو فرانسیسیی ٹیکنالوجی میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔جینیاتی تحقیق شو کے چار دنوں نے ہمیں اپنے دروازے کھولنے کا موقع فراہم کیا۔بین الاقوامی شرکاکے لیے فارمز، نیز سومیٹ میں پہلی نیلامی کے انعقادکیاگیا۔
اس ایونٹ میں خطاب کے بعد شرکا نے راقم سے سوالات کئے جن کے جوابات میں راقم نے دنیابھرسے آئے ہوئے شرکا کوبتایاکہ پاکستان ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں لائیوسٹاک اورڈیری کے بہترین مواقع موجودہیںجس پرفرانس اوردنیابھر کے نمایاں کاروباری کمپنیوںنے جلدپاکستان کادورہ کرنے اورکاروباری مواقعوںسے مستفیدہونے کی خواہش کااظہارکیا۔ راقم نے کانفرنس کے اختتام پرشرکا پرزوردیاکہ وہ پاکستان میںنہ صرف اپنے کاروبارکااغازکریں بلکہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع بھی موجودہیں جن کی معلومات بھی فراہم کیں ۔
راقم نے شرکاء کومزیدبتایاکہ پاکستان دنیامیں دودھ پیداکرنے ولادنیاکاچوتھاملک ہے جہاںپرماڈرن ڈیری فارمنگ کے ماحول کے نہ ہونے کی وجہ سے کسان کواس کی محنت کامعاوضہ نہیں ملتا۔ پاکستان میں چیزپروسسنگ پلانٹ، کول سٹوریج ،کنٹرول ڈیری شیڈاوراس طرح کی دیگرسہولیات نہ ہونے کی وجہ سے غیرملکی کمپنیوںکیلئے ایک بڑی مارکیٹ موجودہے جس میںیہ کاروباری کمپنیاں اورافراداپنی مصنوعات کومتعارف کراسکتی ہیں۔اسی طرح سے جدیدمذبحہ خانے قائم کرنے کیلئے بھی جدیدمشینری کی ضرورت ہے ۔ فرانس ،یورپی یونین اوردیگرممالک کوپاکستان میں موجودوٹنری کے شعبہ میںٹیکنیشن ڈاکٹرزاوردیگرسٹاف کی تربیت کیلئے سہولیات فراہم کرنی چاہیے ۔ جس کی وجہ سے دونوںممالک کے کسان اورڈیری فارمرایک دوسرے کے تجربات اورمشاہدات سے فائدہ اٹھائیں۔
دنیاجس تیزی سے ٹیکنالوجی کاہرشعبہ میں استعمال کررہی ہے ،پاکستان ابھی اس سے کوسوں دورہے۔ پاکستان میں لاکھوں لیٹردودھ ضائع جاتاہے اگرکسان کوتربیت اورسہولیات دی جائیں تواسی دودھ کوچیزمیں تبدیل کرنے سے اس کی آمدن میں بے پناہ اضافہ ہوسکتاہے اورچیزکوایکسپورٹ کرنے سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائربھی بہترہوسکتے ہیں۔پاکستان میں پروڈکشن کے ذرائع موجودہیں لیکن یہاںپروسائل کی کمی اورحکومتوں کی عدم دلچسی کی وجہ سے مسائل پائے جاتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسان کووہ تربیت نہیں مل سکی جس کی بدولت نہ صرف وہ اچھی نسل کے جانوروں کی پروڈکشن میں اضافہ کرسکتاہے بلکہ دودھ خراب ہونے سے بھی بچانے کیلئے جدیدطریقے بھی اختیارکرسکتاہے۔جب یہ خدشہ پیداہوجائے کہ دودھ خراب ہونے کے قریب ہے تو دودھ خراب ہونے سے پہلے ہی اسے چیزمیں تبدیل کرنے کاانتظام کیاجاسکتاہے لیکن بہتراورضروری تربیت نہ ہونے کی وجہ سے کسان ہاتھ پرہاتھ دھرے اپنے نقصان کواپنی آنکھوں سے دیکھتاہے لیکن کرکچھ نہیں سکتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ بے شمارلوگ اس کاروباری نقصان سے دلبرداشتہ ہوکردوسری طرف نکل جاتے ہیں۔
لائیوسٹاک فارمنگ کے حوالے سے ہماری عدم دلچسپی یابے توجہی کااس بات سے اندازہ لگائیں کہ 05 اگست2018 شعبہ لائیو سٹاک کی استعداد کار بڑھانے اور جانوروں میں بیماریوں کی جدید بنیادی پر تشخص کیلئے ڈویژن سطح پر ڈزیز انویسٹی گیشن سیل کے قیام کامنصوبہ فنڈ ز کا تعین نہ ہونے کے باعث تاحال شروع نہ ہوسکاہے اور فائلوں تلے دب کر رہ گیا ہے ۔ یہ ایک امیدافزاپروگرام تھاجسے شروع ہی نہ کیاجاسکا۔ذرائع کے مطابق گزشتہ مالی سال کے آغاز پر لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کو ری آرگنائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ،جس کے تحت سیکرٹری لائیو سٹاک کی طرف سے باضابطہ نوٹیفکیشن اور گائیڈ لائن جاری ہوئی اور ڈویژنل سطح پر لیبارٹری ڈزیز انویسٹی گیشن کے قیام کی فیزبیلٹی رپورٹ تیار کر کے صوبائی حکام کو ارسا ل کی گئی جس کے بعد اس مجوزہ جدید تشخیصی سنٹر کی تحصیل سطح پر شاخیں قائم کی جانا تھیں مگر ڈویژنل سطح پر لیبارٹری کیلئے پورے مالی سا ل میں فنڈز مختص نہ کئے جا سکے جس کے باعث یہ منصوبہ اعلانات اور کاغذی کاروائی سے آگے بڑھ سکا،اورنئے مالی سال میں بھی فنڈز کے تعین کا مسئلہ بدستو ر برقرار ہے جبکہ یہ پراجیکٹ فائلوں میں دب کر رہ گیا ہے جس کے باعث جانوروں کی بڑھتی ہوئی بیماریاں اور سرکاری سطح پر مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے فارمرزشدید پریشانی کا شکار ہیں،جن کا کہنا ہے کہ سرکاری وٹنری ہسپتالوں میں مفت علاج معالجہ اور تشخیص کے دعوے کئے جاتے ہیں مگر وہا ں بھی مہنگا علاج معالجہ جاری ہے ، حکومت کو صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے متذکرہ منصوبے کو فوری شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔
دودھ انسانی غذا کا ایک اہم جزو ہے۔ دودھ نہ صرف ایک مکمل غذا ہے بلکہ شفا بھی ہے۔ ہمارے پیغمبر ۖ کی پسندیدہ ترین غذائوں میں دودھ بھی شامل ہے۔ دودھ کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے، یہ انسان کی اولین غذا ہے جو پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک ہر عمر میں صحت کے لئے ایک نہایت ہی اہم اور ضروری ہے جو کہ انسانی وجود کی تمام تر ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ اس میں معدنیات، جیسے کیلشیم وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جو کہ ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی کے لئے نہایت اہم ہے۔ دودھ میں موجود پروٹین جسم کی حیاتیاتی ضروریات کو پورا کرتا ہے ، جبکہ ایک اندازے کے مطابق روزانہ ایک گلاس دودھ انسانی جسم کی تقریبا چوالیس فیصد 44% حیاتیاتی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا میں بھارت دودھ کی پیداواراوراستعمال میں سب سے آگے ہے جہاں سروے کے مطابق سالانہ حساب سے تقریبا ملین ٹن دودھ پیدا ہوتا ہے۔ امریکہ ملین ٹن کے ساتھ دوسرے نمبر پر، تیسرے نمبر پر ملین ٹن کے ساتھ چین اور چوتھے نمبر پر ہمارا ملک پاکستان ، جہاں دودھ کی سالانہ پیداواراتقریبا ملین ٹن ہے۔
پاکستان کو اللہ تعالی نے نہایت ہی موزوں آب و ہوا اور زرعی اعتبار سے نہایت ہی زرخیز زمین عطا کی ہے۔ پاکستان کے ہر خطے میں اس علاقے کی آب وہوااور موسم کے مطابق زراعت ہوتی ہے ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں زراعت کو اس طرح سے ترقی نہیں دی گئی جس کی ضرورت تھی۔ اس وقت پاکستان کی زراعت کا زیادہ تر انحصار پنجاب پر ہے جہاں پر زرعی شعبے میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں محکمہ زراعت بھی لائیوسٹاک اور ڈیری ڈیویلپمنٹ میں کافی کام کررہا ہے ہے۔
زمینداروں اور فارمرز کو دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافے کے لئے مفت ٹریننگ، ادویات، ویکسین، ڈیری فارم کے بنانے میں مالی امداد کے ساتھ ساتھ مشینری کی مد میں مددکی اشدضرورت ہے ۔اس پراجیکٹ سے فائدہ اٹھانے کے لئے لازمی ہے کہ فارمرزمیندار کے پاس دس گائے یا بھینسیں بغرض دود ھ یا گوشت کی پیداوار کے لئے مووجود ہوں، جبکہ دیگر پراجیکٹس کے تحت نئے فارمزکی رہنمائی اور اس میدان میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع فراہم کئے جانے چاہئیں۔
ڈیری مصنوعات کی مانگ میں اضافے اور روز مرہ ضروریات کو دیکھتے ہوئے کئی افراد اس کاروبار سے وابستہ ہورہے ہیں۔ لیکن زمینداروں اور فارمز کی کم تعلیمی معیار کی وجہ سے اس فیلڈ میں خاطرخواہ اضافہ نہیں دیکھا گیا مگر اب اس میدان میں کئی پڑھے لکھے افراد بھی سرمایہ کاری کرنے کے لئے میدان میں آرہے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے۔
روزمرہ زندگی میں دودھ کی ضروریات کو پورا کرنے اور اس میدان میں خود کفیل ہونے کے لئے پڑھے لکھے لوگوں کو ڈیری فارمنگ میں آنا چاہئے اور اس میدان میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھرپور مدد حاصل کرنی چاہئے۔ چونکہ دودھ ایک ایسی غذا ہے جس کی ضرورت ہر گھر میں ہوتی ہے اس لئے اس کی مانگ بھی زیادہ ہے ۔ اچھی نسل کے دودھیل جانوروں سے اچھے معیار کا دودھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دودھ کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لئے زمیندارمارمرزکو اچھی نسل کے جانوروں کے حصول کے ساتھ ساتھ ان کی اچھی اور متوازن غذا کا بھی خیال رکھنا لازمی ہے اور وقتا فوقتا ویٹنری ڈاکٹر سے جانوروں کا معائنہ بھی لازمی ہے۔ جانوروں کو کھلی اور ہوادار جگہوں پر رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ ان کو تازہ خوراک کے ساتھ ساتھ صاف ستھرا ماحول ملے اور اگر ممکن ہو تو سائنسی طریقوں سے ان کی افزائش نسل کے ساتھ ساتھ ان سے دودھ بھی ہائی جین طریقے سے لیا جائے۔اگر حکومت بھی پڑھے لکھے نوجوانوں کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ مراعات بھی دے تو کوئی شک نہیں کہ پڑھے لکھے لوگ بھی ڈیری ڈیولپمنٹ میں اپنا حصہ بھر پور طریقے سے انجام دیں گے توپاکستان بھی دودھ کی پیداوار میں آگے بڑھے گا۔
جہاں دودھ کی پیداوار ضروری ہے وہاں صارف کو معیاری اور تازہ دودھ پہنچا نا بھی بہت اہم ہے ۔ صارفین کی ضروریات اورطلب کو مدنظر رکھتے ہوئے مارکیٹ میں کئی اعلی قسم کی پیکنگ میں دودھ دستیاب ہوتا ہے مگر کھلے دودھ کی مانگ میں بھی کمی نہیں آئی، گوالے جو دودھ لے کر گھروں پرپہنچاتے ہیں اکثر ناقص صفائی اور کوالٹی کی وجہ سے عوام کو شکایت رہتی ہے۔ دودھ کو ٹھنڈا اور جراثیم سے پاک رکھنے کے لئے اب مارکیٹ میں کئی اقسام کی مشینیں اور چلرزدودھ کو ٹھنڈا اور جراثیم سے پاک رکھنے والی مشین دستیاب ہیں جن میں تازہ دودھ کو سٹور کیا جاتا ہے ۔ ان مشینوں کی آمد کی وجہ دودھ فراہم کرنے والے دکانداروں کے لئے بھی آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ مارکیٹ میں اب دودھ کی کئی بڑی بڑی دکانیں کھل گئی ہیں جہاں دودھ اور دودھ سے بنی اشیا تازہ اور خالص دستیاب ہوتی ہیں۔گرمی کے موسم میں دہی کے استعمال میں اضافہ کی وجہ سے دودھ کی طلب میں بھی اظافہ ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے یہ طلب روزانہ لاکھوںتک بڑھ جاتی ہی۔
پاکستان میں دودھ کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے ہر سال اربوں روپیہ کے عوض خشک و تر دودھ درآمد کیا جاتا ہے، جس سے ملک کا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ اگر حکومت ڈیری ڈیویلپمنٹ پر خاص توجہ دے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس طرف آنے کی ترغیب اورڈیری ڈیویلپمنٹ میں سرمایہ کاری کرنے کے بہتر مواقع فراہم کرے تو کوئی شک نہیں کہ کچھ عرصہ بعد پاکستان بھی اپنی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ دودھ برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں شمار ہوگا۔
شرکاء نے میری رپورٹ اورتجاویزسے اتفاق کیااورکئی ممالک نے اس حوالے سے پاکستان میں اپنی دلچسپی کابھی اظہارکیا ۔مگرپاکستان میں اس حوالے سے کاروباری مشکلات ،ٹیکس کے ایشوزمناسب رہنمائی نہ ملنے اورعدم تحفظ جیسے مسائل اٹھائے انہوں نے بتایاکہ ان مسائل کی وجہ سے وہ پاکستان کی بجائے انڈیا،بنگلہ دیش اورخطے کے دیگرممالک کوترجیح دیتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ ان کاخیال تھا کہ پاکستان میں بین الاقومی سرمایہ کاروں کوویزے کے مسائل کابھی سامناہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان جودودھ پیدانے کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبرپرہے مگرفراس میں منعقدہونے والے لائیوسٹاک کے اس بڑے شومیں پاکستان کی نمائندگی نہیں تھی جبکہ فرانس میں موجود پاکستان ایمبیسی کے کمرشل اتاشی اوردیگراہلکاربھی وہا ںنظرنہیں آئے حالانکہ دنیابھرسے آئے ہوئے شرکاء نے متعددبارپاکستان کی نمائندگی کے بارے دریافت بھی کیا ۔
تین روزہ کانفرنس میںبہت اچھاوقت گزرا،بہت کچھ سیکھنے اوردیکھنے کوملا۔ایک نئی دنیااورنئے دوستوں سے تعارف ہوا۔کانفرنس سے فارغ ہونے کے بعدگھومنے پھرنے کونکلے تاکہ سفرکے لطف کودوبالاکرسکیں ۔ کلیری موڑمیںدوستوں کے ہمراہ این سی لیک دیکھنے کے لئے گئے۔یہ وہی جگہ ہے جہاںپاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل رقمر باجوہ سے ایک افغانی شہری نے بدتمیزی کی تھی ۔نہایت خوبصورت شہرہے ۔ این سی پارک میں مقامی افرادکی بڑی تعداداپنی فیملیوں کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ ان کے چہروں پرسجی مسکراہٹ ان کی خوشحالی کی نویدسنارہی تھی ۔ ہوٹلوںمیں بیٹھنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی لیکن مقامی دوستوں کے ہمراہ ہم ہوٹل میں بیٹھ کرکھاناکھانے کی جگہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔
این سی لیک سوئیزرلینڈکی سرحدکے قریب واقعہ ہے اوریہ علاقہ ہمارے آزادکشمیرجیسا ہے ، لوگ محنت کش ہیں ، مردوخواتین کھیتوںمیں کام کرتے ہیں، بلڈنگ اتنی پرانی ہیں کہ ان میں کچھ کے آثاردوسواورتین سوسال پرانے ہیں۔ این سی لیک کودیکھ کر بنجوسہ جھیل کانقشہ ذہن میںآگیالیکن این سی لیک جدیدسہولیات کی وجہ سے مختلف تھی ۔ چارگھنٹے این سی لیک پرگزارنے کے بعدواپسی پرلیون کے قریب ایک گائوںمیں جاناہوا۔جہاں سولویںصدی کاایک گھربناہواتھاجس میں ایک رات گزارنے کاموقعہ ملا، اس پرانی بلڈنگ کوسج سنوارکربہترین اندازسے قائم رکھاگیاتھاجوآثارقدیمہ کی ایک علامت ہے ۔ اس گائوں سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ یورپ میں صدیوںپرانی تہذیب ہونے کے باوجودلوگوں نے اپنی تہذیب کووقت کے ساتھ جدت میں توڈھالاہے لیکن اپنی زبان ،تہذیب اورثقافت کوبھی زندہ رکھاہواہے اورانہوں نے اپنے ماضی سے تعلق نہیں توڑاہے ۔
سویزرلینڈمیںرہنے والے لوگوں کی آمدن کازیادہ انحصارسیاحت پرہے ۔ دودن گزارنے کے بعدواپس پیریس کی طرف رخصت سفرباندھا،جہاںمیرپورسے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل اورفرانس کی معروف کاروباری شخصیت چودھری نعیم کے ہمراہ مسلم لیگ ن فرانس کے چیئرمین راجہ علی اصغر،معروف صحافی اورپیارے دوست یونس خان سے ملاقات ہوئی ۔میں جتنے دن فرانس میں رہاچودھری نعیم گاڑی سمیت میرے ساتھ رہے اورانہوں نے مجھے پورا پیرس گھمایاایک ایک جگہ کے بارے میں بتایا،مشہورشاہراہ شانزے الیزے ، جہاں دنیاکے مہنگے ترین ریسٹورنٹس ، مہنگے ترین برانڈموجودہیں جہاں شاپنگ توکی جاسکتی ہے لیکن ان پیسوںکوپاکستانی روپے میں تبدیل کریں توہارٹ اٹیک بھی ہوسکتاہے ، ہوٹل بھی مہنگے ہیں جہاں کم سے کم کھانے کابل بھی جیب پرکافی بھاری پڑتاہے ۔
چودھری نعیم کاتعلق بھمبرسے ہے ، پاکستان اورآزادکشمیرسے آئے ہوئے لوگوں کی میزبانی کیلئے ہروقت حاضرہوتے ہیں۔ یورپ جیسے مصروف ترین ملکوںمیں بزنس کرناجان جوکھوںکاکام ہی نہیںبلکہ ایک مشکل ترین ٹاسک ہے ، جسے ہمارے میرپورڈویژن کے لوگوں نے پوراکیاہے اوردنیامیں ایک مقام حاصل کیا۔ چودھری نعیم پاکستان کی پہچان ہیں اوران جیسے لوگ بلاتنخواہ ملک کے سفیرہوتے ہیں جوملک کاسافٹ امیج بنانے میں کرداراداکررہے ہیں۔ چودھری نعیم اپنی کاروباری اورگھریلومصروفیات سے وقت نکال کرمہمانوں کوٹریٹ کرتے ہیںحالانکہ یہ ان کی ڈیوٹی میں شامل نہیں ہے لیکن اس کام کووہ خوشی سے سرانجام دیتے ہیں۔ چودھری نعیم جیسے لوگوں کی ضرورت ریاست کے اندرزیادہ ہے کیونکہ ایسے لوگ جوملک سے باہررہ کرریاست کے عوام اورریاست کی بہتری کیلئے سوچتے ہیں ان لوگوں کوپہچانناوقت کی ضرورت ہے اوران کے تجربات سے فائدہ اٹھانابھی لازمی ہے جنہوںنے ملک سے باہررہ کرایک نئے ماحول میں اپنی وہ پہچان بنائی جووہاں رہنے والے بھی نہ بناسکے ۔ وطن عزیزمیں انسانوں کی قدروقیمت نہ ہونے کی وجہ سے ہیرووں کی پہچان نہیں کی جارہی ۔
خیرچودھری صاحب ایک متاثرکن شخصیت کے مالک ہیں جوریاست کافخرہیں۔ بے شماردوستوں نے اصرارکیاکہ میں اپنے قیام کوبڑھادوں مگروقت نہ ہونے کی وجہ سے کئی دوست احباب سے ملاقات نہ ہوسکی اورواپسی کارخت سفرباندھا۔ یورپ میں سب سے منفردچیزمحنت، وقت کی پابندی اورآئین کی پاسداری ہے ۔ ہرشخص کام کرنے کوضروری سمجھتاہے، آفس بوائے کی جگہ لوگ خودکام کرتے ہیںاورکوئی بھی کام براتصورنہیں کیاجاتا۔ لوگ محنت سے نہیں کتراتے ،یہی یورپ کی ترقی کارازہے ۔
واپس جہازپربیٹھتے ہی یہ محسوس ہواکہ صبح آٹھ بجے مجھے اسلام آبادایئرپورٹ سے رسیوکرنے کون آئے گا؟یہی بادشاہانہ سوچ ہمیں سٹیٹس کے چکرمیں ڈالتی ہے اورہم نکمے ترین لوگوں کی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یورپ کے دس روزہ پانی کے اثرات تھے اورمیں نے سوچاکہ ایئرپورٹ سے نکل کرگاڑی منگوانے یادیگرذرائع کی بجائے میٹروکے ذریعے گھرپہنچاجائے ،پھریہی ہوااورسٹیٹس کے بجائے میٹروپرسفرکرکے مبلغ دوسوروپے میں گھرپہنچ گیا۔یوں میری زندگی کاایک اوراہم ترین سفرمکمل ہوا۔