تحریر:سلمان ملک
صبح سویرے نان سٹاپ ڈور بیل بجنے کی آواز سن کر گیٹ کھولا تو سامنے صفائی والے سرکاری عملہ نے کیمرے اٹھائے کمنٹری شروع کردی کہ جب آپ سورہے ہوتے ہیں تو ہم صفائی میں مصروف عمل ہوتے ہیں ساتھ ہی کیمرہ کا رخ میری جانب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیے صفائی کا عملہ موجود ہے کہ نہیں۔جی ناظرین شہری بھی اس بات کی گواہی دے رہیں ہیں کہ ہم ڈیوٹی پر موجود ہیں۔
ابھی دروزہ بند ہی کیا تھا کہ ایک بار پھر سے بیل سنائی دی باہر کھڑے ڈاکیے نے ڈانٹے ہوئے کیمرے کو میرے سامنے کردیا کہ ناظرین دیکھیں ہم ڈاک دینے پہنچ گئے ہیں۔ہم آپ کی ڈاک پہنچا کر احسان عظم کرتے ہیں اور آپ ہیں کہ سو رہے ہیں۔اس کے ہاتھ میں میری ہی ایک اور چھٹی تھی میں نے کہا کہ یہ بھی دے دو تو اسنے گھورتے ہوئے کہا ایسے نہیں اس کے لیے ایک اور ویڈیو بنانی ہوگی جس میں آپ ڈاک پہنچانے پر میرا شکریہ ادا کریں گے اگر ہم ڈاک نہ دیں تو آپ کیا اکھاڑ لیتے چلو شکریہ ادا کرو۔گلی سے باہر نکلا تو بجلی کے بل والا کیمرے اٹھائے بل لو اور ویڈیو میں میرا شکریہ ادا کرو۔
میں نے ایک کام کے سلسلے میں ایک سرکاری دفتر کا رخ کیا تو چوکیدار نے کہا کہ گاڑی اندر لیکر جانے سے پہلے ویڈیو میں میرا شکریہ ادا کرو کہ میں نے گیٹ کھولا۔سرکاری دفتر پہنچا تو وہاں بھی آفیسر کے ساتھ دو افراد کیمرہ اٹھائے کھڑے تھے،کیمرے کی وجہ سے بن بات کیے واپس نکلا تو دروزے کے باہر کیمرہ اٹھائے اہلکار نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈ کرواؤ کہ صاحب آپ سے بہت خوش اسلوبی سے ملے اور آپ کا کام بھی ہوگیا۔میں نے سمجھانا چاہا کہ بھائی نہ تو میرا کوئی کام تھا اور نہ ہی حل ہوا کس بات کا شکریہ ادا کروں؟اس نے کہا کہ سرکاری دفتر آئے ہو تو ویڈیو تو بنوانی ہوگی، خیر انہوں نے اس بات پر جانے دیا کہ چلواتنی ویڈیو ریکارڈ کروا دو کہ صاحب بہت اچھے اور ایماندار افسر ہیں۔
اس صورتحال سے زچ ہو کر میں نے سوچا کہ سوشل میڈیا دیکھ لوں اکاؤنٹ اوپن کیا تو دیکھا کہ سرکاری ٹیچر بچوں کو پڑھانے کی بجائے لائیو ویڈیو میں بتا رہا تھا کہ وہ ہمارے بچوں کے مستقبل کیلئے نیند خراب کرکے پڑھانے آیا ہے اگر وہ نہ پڑھانے آتا تو بچے تعلیم کی نعمت سے محروم ہوجاتے۔دوسری ویڈیو میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف زخموں سے تڑپتے مریض کا علاج کرنے کی بجائے اس سے ویڈیو ریکارڈ کروا رہے ہیں۔بارشوں کے پانی سے شہر ڈوب رہا تھا لیکن واسا کا عملہ ویڈیو بنانے میں مصروف تھا۔
ایک سرکاری آفیسر روہانسی آواز میں بتارہا تھا کہ زندگی حرام ہو گئی ہے واش روم جانے لگا تھا کہ سرکاری سویپر نے دروازے پر روک لیا کہ پہلے ویڈیو بناؤ کہ وہ کیسی صفائی کرتا ہے۔سرکاری دھوبی کو بلایا کہ کپڑے لے جاؤاس نے کہا کہ پہلے ویڈیو ریکارڈ کرواؤ کہ اگر میں کپڑے دھلائی نہ کرتا تو آپ دفتر نہیں جا سکتے تھے یہ میرا احسان ہے کہ کپڑے دھو کر واپس کردیے۔ڈرائیور چلتی گاڑی میں کہتا ہے کہ ویڈیو بنواؤ کہ میں گاڑی ڈرائیو نہ کرتا تو آپ کام پر نہ پہنچ پاتے۔ہر طرف ایکٹنگ ماڈلنگ اور کیمرے ہی کیمرے کوئی کارگردگی نہیں رہی۔غرض عوامی فلاح و بہبود کے کام ٹھپ ہوگئے ہیں اور ہر کوئی کیمرہ اٹھائے یہ بتانے اور جتلانے میں لگا ہے کہ اس نے سرکاری کام کرکے بہت بڑا کارنامہ کردیا ہے اور اس کارنامے کیلئے کم از کم نشان امتیار اور ستارہ جرات ہونا چاہئے۔جب اس سے کہا کہ بھائی تم یہ سب کام کرنے کی تنخواہ لیتے ہویہ تمہارا فرض ہے کوئی احسان نہیں۔تو اس نے جھٹ سے جواب دیا کہ ہم اپنے ڈیپارٹمنٹ کی مثبت ایمج بلڈنگ کررہے ہیں۔ میں نے بہت سمجھایا کہ تم کیمرہ اٹھانے کی بجائے جس کام کی تنخواہ لے رہے وہ کرو تو لوگ خود تمہاری تعریف کریں گے۔ ایسی جعلی ویڈیوز اور ماڈلنگ کا کیا فائدہ کہ پبلک ڈلیوری ختم ہوچکی ہے۔تمہاری ان جعل سازیوں پر عوام دل ہی دل میں نہ صرف گالیاں دیتی ہے بلکہ تم سے شدید نفرت کرنے لگی ہے اوربدعائیں دے رہے ہیں کہ یا اللہ ان ٹک ٹاکرز سے نجات دلا دے۔
غرض یہ کہ آج اگر پولیس کے ٹک ٹاک اور افسران کی ذاتی پروجیکشن نہ روکی گئی تو کل کو آپ کو اسی صورت حال کا سامنا کرنا ہوگا جس کی منظر کشی اوپر کی گئی ہے کہ ہر سرکاری ملازم کیمرہ اٹھائے آپ سے زبردستی تعریفی ویڈیو ریکارڈ کرواتا پھرے گا۔ابھی بھی وقت ہے لاقانویت اور سیلف پروجیکشن کے اس غیر قانونی کام کو روکنے کیلئے احکام بالا اور عدلیہ کا دروازہ کھٹکایا جائے ورنہ شہرت کی لت میں پاگل ہونے والوں کو بھگتنے کیلئے تیار رہیے۔
ملک سلمان
maliksalman2008@gmail.com