انسان اب چیٹ جی پی ٹی کی طرح بات کرنے لگے ہیں، تحقیق
یہ کہنا مشکل ہے کہ اسے اچھا سمجھا جائے یا تشویشناک، مگر حقیقت یہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ٹولز کے عام ہونے کے بعد انسانوں کے باہمی رابطے کا انداز تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اب یہ صرف ایک تحریری معاون یا سرچ انجن نہیں رہا، بلکہ بات چیت کرنے والے ساتھی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

کم از کم جرمنی کے ماہرین کی تحقیق تو یہی ظاہر کرتی ہے۔
میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ہیومین ڈویلپمنٹ کی تازہ تحقیق کے مطابق، اب لوگ چیٹ جی پی ٹی جیسا اندازِ گفتگو اپنا رہے ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات یہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آپ کسی انسان سے بات کر رہے ہیں یا مصنوعی ذہانت سے۔
مطالعے میں بتایا گیا کہ گزشتہ 18 ماہ کے دوران دنیا بھر کے لاکھوں افراد نے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کیا، اور اب وہ ایسے الفاظ اور انداز اپنا چکے ہیں جنہیں ماہرین نے "جی پی ٹی ورڈز” کا نام دیا ہے — ایک ایسا رجحان جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
تحقیق کے دوران لاکھوں ای میلز، مضامین، تدریسی مقالے اور خبریں چیٹ جی پی ٹی پر اپ لوڈ کی گئیں اور اس سے کہا گیا کہ وہ ان تحریروں کو بہتر بنائے۔ بعد ازاں محققین نے جائزہ لیا کہ چیٹ جی پی ٹی کن الفاظ کا زیادہ استعمال کرتا ہے۔
ان الفاظ کو پھر 3 لاکھ 60 ہزار یوٹیوب ویڈیوز اور 7 لاکھ 71 ہزار پوڈکاسٹس میں تلاش کیا گیا، اور چیٹ جی پی ٹی کے اجرا سے پہلے اور بعد کے ڈیجیٹل مواد کا تقابلی تجزیہ کیا گیا۔
تحقیق کے نتائج چونکا دینے والے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انگریزی زبان میں "جی پی ٹی الفاظ” کا استعمال نمایاں طور پر بڑھ گیا ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مصنوعی ذہانت کا طرزِ بیان انسانوں کے اندازِ اظہار پر اثرانداز ہو رہا ہو۔
محققین نے واضح کیا کہ انسان فطری طور پر دوسروں کی نقل کرتا ہے، لیکن یہ نقل وہ صرف اسی وقت اختیار کرتا ہے جب اسے محسوس ہو کہ سامنے والا شخص باعلم یا بااثر ہے۔ آج چونکہ بڑی تعداد میں لوگ اے آئی ٹولز سے رجوع کر رہے ہیں، اس لیے ان ٹیکنالوجیز کا اثر انسانی رویے اور ثقافت پر بھی مرتب ہو رہا ہے۔
