اسلام آباد: سپریم کورٹ کی کارکردگی سے متعلق مختلف قانونی حلقوں نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے ایک سالہ دور پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ پر عوامی اعتماد میں خاطر خواہ بہتری نہیں آ سکی۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے باوجود بیشتر ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ ادارے کے اندر گہرے مسائل اب بھی موجود ہیں۔
موسم سرما کیلئے گیس کا نیا شیڈول جاری
اتوار کو سپریم کورٹ نے اپنی کارکردگی سے متعلق ڈیٹا جاری کیا جس میں انصاف کی فراہمی کے نظام میں بہتری کے دعوے کیے گئے اور ججوں، وکلا اور وفاقی حکومت کے تعاون کو سراہا گیا۔ تاہم سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے اس اقدام کو "ادارہ جاتی کمزوری” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتی اختیار کی نہیں بلکہ انتظامی بیان بازی کی عکاسی کرتا ہے۔
ایڈووکیٹ عبدالمعیز جعفری نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ سال حکومت کے زیرِ اثر بینچ تشکیل دیے گئے جنہوں نے مخصوص مقدمات میں حکومتی مفاد میں فیصلے دیے۔ ایڈووکیٹ ردا حسین کے مطابق چیف جسٹس کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز عدلیہ کی ساکھ سے متعلق حقیقی مسائل کو نظر انداز کرتی ہے اور نیا ضابطہ اخلاق شفافیت کے بجائے ججز پر غیر ضروری پابندیاں عائد کرتا ہے۔
ایڈووکیٹ حافظ احسان احمد نے کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے قوانین میں ترامیم، ڈیجیٹل نظام کے نفاذ اور عدالتی کارکردگی میں بہتری کے لیے کچھ مثبت اقدامات کیے ہیں، تاہم عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عدلیہ کی اصلاح اور شفافیت پر مبنی اقدامات ہی ادارے کے وقار کو بحال کر سکتے ہیں۔