sui northern 1

ٹڈاپ میگا کرپشن اسکینڈل ، یراعظم اور موجودہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی سمیت تمام ملزمان باعزت بری

0
Social Wallet protection 2

‏کراچی (مسعودچوہدری) وفاقی اینٹی کرپشن عدالت نے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (TDAP) کے میگا کرپشن اسکینڈل میں سابق وزیراعظم اور موجودہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی سمیت تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔ عدالت کے جج محمد عظیم اعوان نے کیس کے حتمی فیصلے میں قرار دیا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف کوئی قابلِ قبول اور ناقابلِ تردید شواہد پیش نہیں کر سکا، لہٰذا تمام 26 مقدمات میں بریت بنتی ہے۔

sui northern 2

‏یوسف رضا گیلانی پر الزام تھا کہ انہوں نے TDAP کے ذریعے جعلی ایکسپورٹرز کو سبسڈی کلیمز جاری کروانے کی منظوری دی، جن کے بدلے مبینہ طور پر فی کلیم پانچ لاکھ روپے رشوت کے طور پر وصول کی گئی۔ ان کلیمز کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں تھی، جن میں سے ہر ایک کی مالیت لاکھوں میں تھی، اور بعض ذرائع کے مطابق فی کلیم کی ادائیگی 30 سے 50 لاکھ روپے تک جا پہنچی۔ مجموعی مالی نقصان کا ابتدائی تخمینہ 7 ارب روپے سے زائد لگایا گیا، جو کہ قومی خزانے کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔

‏اس اسکینڈل کی ابتدائی شکایات 2009 میں موصول ہوئیں، جب TDAP کے اندر سے ہی کچھ افسران نے نامعلوم کمپنیوں کو دی گئی سبسڈی پر اعتراض اٹھایا۔ بعد ازاں 2013 میں ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بختیار چنا نے اس کی باقاعدہ انکوائری کا آغاز کیا اور 26 مقدمات درج کیے۔ 2015 میں یوسف رضا گیلانی کو بھی ایف آئی اے نے ان مقدمات کے حتمی چالان میں بطور ملزم نامزد کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ اس اسکینڈل میں مرحوم مخدوم امین فہیم (اس وقت کے وفاقی وزیر تجارت)، TDAP کے سابق CEO طارق اقبال پوری، ڈی جی عبدالباسط، سابق سیکریٹری تجارت ضیاءالدین، ڈی جی عبدالکریم ڈاؤدپوٹا، اور 100 سے زائد افراد نامزد کیے گئے۔ ان میں درجنوں ایکسپورٹرز شامل تھے، جن کی کمپنیاں کاغذوں میں تو موجود تھیں، مگر عملی طور پر ان کا کوئی وجود نہ تھا۔

‏یہ فراڈ درحقیقت ایک منظم مالیاتی اسکیم تھی، جس میں جعلی برآمدی کلیمز داخل کیے جاتے تھے۔ جعلی شپنگ بلز، جھوٹے بینک سرٹیفکیٹس، اور فرضی ایکسپورٹ انوائسز کے ذریعے TDAP سے برآمدی سبسڈی کے نام پر رقوم حاصل کی جاتیں۔ بعد ازاں یہ رقوم مخصوص بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر کے نقد نکلوائی جاتیں اور بقول استغاثہ، ان میں سے ایک خاص حصہ بالا حکام تک پہنچایا جاتا۔ ایک ملزم فیصل صدیق خان نے بعد میں وعدہ معاف گواہ بن کر بیان دیا تھا کہ اسے فی کلیم سے 5 لاکھ کی کٹوتی کا کہا گیا، جس میں سے بڑی رقم وزیر اور وزیراعظم کے نمائندوں کو پہنچائی جاتی تھی۔

‏عدالتی کارروائی کے دوران ایف آئی اے کی جانب سے متعدد بار چالان میں تبدیلی کی گئی، گواہان پیش کیے گئے، مگر شواہد کی کمزوری اور کئی کلیدی گواہوں کے مکرنے یا عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے کیس کی بنیاد کمزور پڑ گئی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہر ملزم کو انفرادی طور پر سنا گیا اور کوئی ٹھوس شہادت سامنے نہیں آ سکی جو فردِ جرم کو ثابت کر سکے۔

‏فیصلے کے بعد یوسف رضا گیلانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف جھوٹے، بے بنیاد اور سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات بنائے گئے تھے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اتحادی ہیں جنہوں نے یہ مقدمات بنوائے تھے، اور زور دیا کہ پارلیمان کو ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جس سے مقدمات برسوں تک بغیر فیصلے کے نہ چلیں۔

‏وکیل فاروق ایچ نائیک نے اس فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیا اور کہا کہ یہ تمام مقدمات ایک شخص کی ایما پر ایف آئی اے نے سیاسی بنیادوں پر بنائے تھے، جن میں نہ شواہد تھے نہ نیت۔ انہوں نے کہا کہ مقدمے میں استغاثہ کی طرف سے کوئی دستاویزی ثبوت، رقم کی لین دین، یا ٹھوس مالی ریکارڈ پیش نہیں کیا جا سکا۔

‏یہ اسکینڈل کئی برس تک پاکستانی میڈیا اور عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث رہا۔ کئی افسران معطل ہوئے، کچھ کو گرفتار بھی کیا گیا، اور درجنوں افراد نے پلی بارگین یا وعدہ معاف گواہی اختیار کی۔ تاہم سیاسی سطح پر مقدمے کی حساسیت اور کمزور قانونی تیاری کے باعث بالآخر یہ معاملہ قانونی طور پر اختتام کو پہنچا۔

‏یوں، ایک ایسا مقدمہ جو کرپشن کے خلاف ایک مثال بن سکتا تھا، ناکافی شواہد، پیچیدہ قانونی رکاوٹوں، اور سیاسی مصلحتوں کی نذر ہو گیا۔ عدالت نے اگرچہ قانونی طور پر بریت دی ہے، مگر اس فیصلے نے احتساب کے موجودہ نظام پر ایک اور بڑا سوالیہ نشان ضرور لگا دیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.