
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک محمد احمد خان نے حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی کے تناظر میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی جس میں انہوں نے آئینی و قانونی نکات پر وضاحت دیتے ہوئے ایوان کے تقدس، ممبران کے کردار اور احتجاج کے دائرہ کار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
سپیکر نے واضح کیا کہ ان کے پاس مجتبیٰ شجاع الرحمٰن، احمد اقبال اور افتخار چھچھر کی جانب سے تین درخواستیں موصول ہوئیں، جنہیں عام زبان میں “ریفرنس” کہا جا رہا ہے، تاہم درحقیقت یہ آئینی نوعیت کے سوالات ہیں جو آرٹیکل 63(2) کے تحت اٹھائے گئے ہیں۔ ان کے مطابق آرٹیکل 63(2) میں بالکل واضح طور پر درج ہے کہ جب کسی رکن کی نااہلی کا سوال پیدا ہو جائے تو اسپیکر کو تیس دن کے اندر اندر اس پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے، بصورت دیگر معاملہ خود بخود الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جاتا ہے۔
ملک محمد احمد خان نے 2017ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے بائیس ارکان قومی اسمبلی نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف اسی آئینی شق کے تحت سوال اٹھایا تھا اور سردار ایاز صادق سے رجوع کیا تھا۔ بعد ازاں معاملہ سپریم کورٹ میں گیا جہاں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے فیصلہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے یہ موقف اپنایا کہ چونکہ اسپیکر کے سامنے تمام واقعات ہوئے، اس لیے عدالت نے فیصلہ سنایا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت ایک منصوبہ بندی کے تحت کسی کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے تو حلف شکنی کے معاملے پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ معاملہ نہ تو کوئی ذاتی خواہش ہے اور نہ ہی کوئی ریفرنس، بلکہ یہ آئینی سوالات ہیں جن پر فیصلہ کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔
سپیکر نے کہا کہ اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا کوئی سیاسی جماعت اپنی پارلیمانی پارٹی کو ایسی ہدایات دے سکتی ہے جو آئین سے متصادم ہوں؟ ان کے بقول، سیاسی جماعت اور پارلیمانی جماعت کی آئینی حیثیت مختلف ہے، اور کوئی بھی ہدایت جو حلف یا آئینی دائرہ کار کے خلاف ہو، وہ قانونی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
ملک محمد احمد خان نے ایوان میں پیش آنے والے حالیہ ہنگامہ آرائی اور احتجاج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج رکن اسمبلی کا آئینی حق ہے، تاہم اسے بدتمیزی، مارپیٹ یا گالی گلوچ میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی تقریر کے دوران انتہائی بازاری زبان استعمال کی گئی، کتابیں پھینکی گئیں، اور عورت رکن اسمبلی راحیلہ خادم حسین کو ہراساں کیا گیا، جنہوں نے اس معاملے پر اسپیکر کو تحریری درخواست دی اور اب وہ دلبرداشتہ ہو کر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
سپیکر نے زور دیا کہ وہ آرٹیکل 223 کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے اور کسی بھی صورت میں ایوان کو میدان جنگ نہیں بننے دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں اس وقت 37 انتخابی عذر داریاں زیر التوا ہیں جن میں سے 12 تحریک انصاف اور 21 مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کر بھی قسم کھا سکتے ہیں کہ احمد سعید کے خلاف ایک ووٹ بھی جعلی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی وزیر اعلیٰ — چاہے وہ شہباز شریف ہوں، پرویز الٰہی، عثمان بزدار یا نواز شریف — ان کی تقریر کو کبھی ایوان میں روکا نہیں گیا، تو اب یہ روایت کیوں توڑی جا رہی ہے؟ انہوں نے اپوزیشن کے احتجاجی حق کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اجازت ہوگی لیکن وہ آئینی دائرہ کار میں رہے۔
انہوں نے بتایا کہ کے پی اسمبلی کے اسپیکر نے انہیں خط لکھا ہے کہ اپوزیشن کے ارکان کو معطل کرنا درست عمل نہیں تھا۔ تاہم، اسپیکر نے کہا کہ وہ اس خط کے جواب میں آئین کے آرٹیکل 63(2) کے حوالے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا تجزیہ ارسال کریں گے تاکہ قانونی پہلو واضح ہو جائیں۔
ملک محمد احمد خان نے کہا کہ وہ حکومت و اپوزیشن دونوں سے تحریری معاہدہ چاہتے ہیں کہ وہ آئین کی حرمت، ایوان کے تقدس اور جمہوری روایات کی پاسداری کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت کوئی حتمی فیصلہ نہیں کریں گے، لیکن آئندہ تین دن میں سوچ بچار کے بعد کوئی راستہ طے کریں گے۔ اگر وہ سمجھیں گے کہ یہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے تو وہ شکایت کنندگان کو عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیں گے۔
سپیکر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تمام ارکان کو برابر کا حق دیں گے اور کسی کی رائے کو روکنے یا دبانے کی اجازت نہیں دیں گے، تاہم جتھہ بندی، ہنگامہ آرائی، کتابیں پھینکنے اور بدتمیزی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اختتاماً انہوں نے کہا کہ ایوان جمہوریت کا گھر ہے، اس کی حرمت سب پر واجب ہے، اور اس سلسلے میں جو بھی معاہدہ ہوگا، وہ تحریری ہوگا تاکہ آئندہ کسی بھی بدتمیزی یا آئین شکنی کا راستہ بند کیا
