
سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز لاہور نے 25 فروری 2025 کو ایک فکری نشست کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا “ایئر ڈاکٹرائن: پاک فضائیہ کے لیے نئی نسل کی جنگ میں اطلاق”۔ اس سیمینار میں جدید ٹیکنالوجیز، تزویزاتی صف بندیوں اور نظریاتی تبدیلیوں پر غور کیا گیا جو بدلتے ہوئے جنوبی ایشیائی سیکیورٹی ماحول میں پاک فضائیہ کی جنگی صلاحیتوں کو مؤثر اور ہم آہنگ بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔
افتتاحی کلمات ڈاکٹر ایئر کموڈور نوید خالق انصاری (ریٹائرڈ)، ڈائریکٹر CASS، نے ادا کیے۔ انہوں نے اس موضوع کی غیر معمولی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایئر ڈاکٹرائن آج کے دور کی عسکری حکمت عملیوں کے مرکز میں ہے اور اس کا براہ راست تعلق پاک فضائیہ کی مستقبل کی آپریشنل تیاری سے جڑا ہوا ہے۔
ڈاکٹر عادل سلطان، ڈین، فیکلٹی آف ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز، ایئر یونیورسٹی اسلام آباد، نے “ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے اثرات” کے عنوان سے خطاب کیا۔ انہوں نے مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ، سائبر اسپیس، خلائی نظام، اور مصنوعی ذہانت سے لیس ڈرونز جیسے اہم موضوعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ خلا کی تجارتی دوڑ مستقبل کی جنگوں میں پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہے، کیونکہ جو ملک اس شعبے میں برتری حاصل کرے گا، وہی اپنے دفاعی اور تزویراتی مفادات کا مؤثر تحفظ کر سکے گا۔
ایئر مارشل عبدالمعید خان (ریٹائرڈ)، وائس چانسلر، ایئر یونیورسٹی اسلام آباد، نے “ایئر پاور ڈاکٹرائن اور پاک فضائیہ کی ترقیاتی حکمت عملی” پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاک فضائیہ کی ڈاکٹرین کی کُچھ جہتیں خلل انگیز ٹیکنالوجیز کو اپنانے پر توجہ دیتی ہیں تاکہ دشمن کے خلاف عددی کمی کو مہارت سے پورا کیا جا سکے۔ مزید برأں معلوماتی برتری کے ذریعے اُوڈا لوُپ میں سبقت حاصل کرنا، برق رفتار جنگی حکمت عملی اپنانا، اور مرکزی کمان کے ساتھ منتشر کنٹرول اور غیرمرکزی کارروائی کے اصولوں کو اختیار کرنا پاک فضائیہ کے مستقبل کے لائحہ عمل کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں کثیر الجہتی اور متوازی آپریشنز، کم لاگت مگر زیادہ اثر رکھنے والے خودمختار ہتھیاروں کے ذریعے طاقت کا مظاہرہ، الیکٹرو میگنیٹک اسپیکٹرم کا مؤثر استعمال، اور مقامی سطح پر دفاعی صنعت کی ترقی کے ذریعے خودانحصاری، پاک فضائیہ کی اسٹریٹیجک ترجیحات میں شامل ہیں۔
ایئر وائس مارشل ناصر الحق وائیں، ڈائریکٹر، ایرو اسپیس اینڈ وارفیئر،کیس اسلام آباد، نے “جنوبی ایشیا میں فضائی جنگ کے نظریاتی تغیرات” پر روشنی ڈالی اور وضاحت کی کہ بھارت “نہ جنگ، نہ امن” کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت وہ روایتی اور غیر روایتی جنگی حربوں کو یکجا کر کے گرے زون تنازعات کو ہوا دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فضائی طاقت کی نوعیت میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے، جس میں یہ ایک معاون کی بجائے مرکزی عنصر بنتی جا رہی ہے۔ پاک فضائیہ نے اس نظریاتی تغیر کے پیش نظر اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے، جس میں ہائبرڈ جنگ، سائبر اور الیکٹرانک وارفیئر کی صلاحیت میں اضافہ، ملٹی ڈومین آپریشنز کو مؤثر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا انضمام، بغیر پائلٹ کے فضائی نظاموں میں سرمایہ کاری، اور سفارتی سطح پر دفاعی تعاون کو فروغ دینا شامل ہے۔
سیمینار کے اختتامی کلمات میں ایئر مارشل عاصم سلیمان (ریٹائرڈ)، صدر کیس لاہور، نے کہا کہ پاک فضائیہ اپنی ایئر ڈاکٹرائن کو جدید خطرات کے مطابق مسلسل اپ گریڈ کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاک فضائیہ اپنی حکمت عملی کو ڈیٹرنس، درستگی سے حملہ کرنے، اور آپریشنل لچک پر مرکوز کر رہی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے جدیدیت کی اس دوڑ میں پاک فضائیہ کی غیر معمولی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ریڈار ٹیکنالوجی میں ترقی، بصری حد کے پار دشمن کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں بہتری، الیکٹرانک وارفیئر، اور ملٹی ڈومین آپریشنز میں مہارت حاصل کر کے پاک فضائیہ نے اپنے دشمنوں پر برتری حاصل کر لی ہے۔
انہوں نے اس امر کو اجاگر کیا کہ مستقبل کی جنگوں میں مصنوعی ذہانت، سائبر سیکیورٹی، اور خلائی نگرانی کلیدی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی قیادت میں پاک فضائیہ جدید ٹیکنالوجیز، عالمی معیار کی تربیت، اور نیشنل ایرو اسپیس اینڈ سائبر ٹیکنالوجی پارک جیسے اقدامات کے ذریعے دفاعی جدت کی نئی راہوں پر گامزن ہے۔
انہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی اور اسٹریٹیجک منصوبہ بندی کی بدولت پاک فضائیہ بھارتی فضائیہ پر کم از کم چھ سے سات سال کی برتری رکھتی ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں دشمن جہازوں پر پہلے حملہ کرنے کی صلاحیت، پانچویں نسل کے جنگی طیاروں کی متوقع شمولیت، ملٹی ڈومین فورسز، اور فورس ملٹی پلائرز کا استعمال شامل ہیں۔ تاہم، اگر بھارتی فضائیہ ایف پینتیس جیسے جدید طیارے حاصل کرنے اورپاک فضائیہ کے ملٹی ڈومین سسٹمز کا جواب دینے میں کامیاب ہوتی ہے، تو پاک فضائیہ کے کچھ قریب آ سکتی ہیں لیکن حقیقت میں اگلی ایک دہائی تک یہ ممکن نہیں۔
سیمینار کے دوران سوال و جواب کے سیشن میں مقررین نے تینوں مسلح افواج کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملٹی ڈومین آپریشنز کے ذریعے پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، اس امر پر بھی اتفاق پایا گیا کہ پاک فضائیہ کو بحر ہند میں اپنی موجودگی اور اثر و رسوخ کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ اسے ایک مستحکم اور مؤثر فضائی قوت کے طور پر تسلیم کیا جا سکے۔