اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاہےکہ ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے پر حملہ کیسے کر سکتا ہے۔
تفصیلات کےمطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ توہین عدالت کیس کی سماعت کررہاہے۔ بنچ میں جسٹس عرفان سعادت، جسٹس نعیم افغان شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں طلبی پر فیصل واوڈااور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہوگئے۔
مصطفیٰ کمال کی طرف سےوکیل فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے۔
مصطفیٰ کمال کےوکیل فروغ نسیم نےکہاکہ ہم نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے جس میں غیر مشروط معافی مانگی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ آپ اپنا غیر مشروط معافی والا جواب عدالت میں پڑھ کر سنا دیں۔
وکیل فروغ نسیم نے عدالت میں مصطفیٰ کمال کا جواب پڑھ کر سنایا۔
وکیل فروغ نسیم نےکہاکہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگی گئی،صرف ایک صفحہ کے جواب میں معافی مانگی ہے۔ مصطفیٰ کمال نے بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پر معافی مانگی ہے،مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس رباع کی زیر التوا اپیلوں سے متعلق کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس میں کہاکہ یہ کوئی انا کا مسئلہ نہیں لیکن آپ پارلیمان کے ممبر ہیں،ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے پر حملہ کیسے کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےوکیل فروغ نسیم سےاستفسارکیاکہ مصطفیٰ کمال معافی بھی مانگ رہے ہیں اور یہ بھی کہ رہے ہیں کہ توہین عدالت نہیں کی۔
وکیل فروغ نسیم نےموقف اختیاکیاکہ مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ وہ عدالتوں کی عزت کرتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ فیصل واوڈا صاحب آپ تو سینیٹ یعنی اپر ہاؤس کے ممبر ہیں، سینیٹ ممبران کو تو زیادہ تہذیب یافتہ تصور کیا جاتا ہے،چلیں پہلے مصطفیٰ کمال کا معاملہ دیکھ لیں پھر آپ کو بھی سنتے ہیں۔کیا مصطفیٰ کمال نے فیصل واؤڈا سے متاثر ہو کر پریس کانفرنس کی؟
وکیل فروغ نسیم نےکہاکہ نہیں ایسی بات نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دیتےہوئےکہاکہ پارلیمنٹ میں عدلیہ کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک آئینی ادارہ ہے،قوم کو ایک قابلِ احترام عدلیہ اور فعال پارلیمنٹ چاہیئے، ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے پر حملہ کرے تو کوئی فائدہ نہیں۔
وکیل مصطفیٰ کمال فروغ نسیم نےموقف اختیارکیاکہ میرے خیال میں مصطفیٰ کمال کی باتیں توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتیں ۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےوکیل فروغ نسیم سےاستفسارکیاکہ اگر یہ توہین نہیں تھی تو معافی کس بات کی مانگ رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس میں کہاکہ قوم کو ایک ایسی پارلیمینٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو ۔آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی ، اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا ، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے ۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ ججز کی دوہری شہریت کی آئین میں ممانعت نہیں۔
آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں،چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
اٹارنی جنرل نےکہاکہ ججز کی دوہری شہریت کی بات پریس کانفرنس میں کی گئی،ججز کے کنڈکٹ پر بات کرنا توہین عدالت میں آتا ہے، ارکان پارلیمنٹ کو بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 19 پڑھیں کہ کیا کہتا ہے، آرٹیکل 19 میں decency کا لفظ استعمال ہوا ہے،کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کو گالی نکال کر اور ڈرا دھمکا کر مرضی کے فیصلے لے لیں گئے، ایسا ہوتا بھی ہو گا مگر میرے خیال میں میرے سامنے موجود دو شخص اس میں شامل نہیں، کیا کچھ لوگ عدلیہ کو گالی دینا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں؟ ہم لوگوں کی قدر کرتے ہیں انہیں بھی عدلیہ کی قدر کرنی چاہئے، آپ کا کیا خیال ہے کہ لوگوں نے ہمیں اس لیے یہاں بٹھایا ہے کہ ہم آپس میں لڑیں، قوم کا تقاضا ہے پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنے امور کی انجام دہی کرے، پارلیمنٹ نے آرٹیکل 270میں ترمیم کی ہم نے کوئی بات نہیں کی، ہمیں پارلیمنٹ کا احترام ہے، اگر پاکستان کی خدمت کیلئے تنقید کرنی ہے تو ضرور کریں،اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پرتنقید کرے۔