sui northern 1

عنوان: دوا سے زندگی تک — صحت کی واپسی کا سفر

تحریر: محمد آصف آصی، اسلام آباد

0
Social Wallet protection 2

ہم ایک عجیب دور میں جی رہے ہیں۔

sui northern 2

ایسا دور جہاں ہر درد کی پہلی دستک دوا کی بوتل پر ہوتی ہے، ہر بے چینی کا حل کیپسول میں تلاش کیا جاتا ہے، اور ہر مسئلے کا جواب اشتہار میں مسکراتا ہوا کوئی ڈاکٹر دے رہا ہوتا ہے۔ ہم نے زندگی کو اتنا مشینی بنا دیا ہے کہ اب جسم کی آواز سننے کی فرصت بھی نہیں رہی۔

ہم نے زندگی کو نسخوں، درد کم کرنے والی گولیوں اور پیکٹوں تک محدود کر دیا ہے۔ یہ چھوٹی رنگین گولیاں فوری سکون کا وعدہ کرتی ہیں، لیکن خاموشی سے ہماری طویل مدتی صحت چھین لیتی ہیں۔

جیسا کہ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ بیماری نہیں، ہمارا طرزِ زندگی ہے۔ بیماری تو جسم کا پیغام ہے، لیکن ہم پیغام پڑھنے کے بجائے ڈاکیے کو مار دیتے ہیں۔

ہم علامات کا علاج کرتے ہیں، اسباب کا نہیں۔ ہم دوا کھا کر جسم کی آواز دباتے ہیں، اس کے اصل سبب کو نہیں سمجھتے۔ تھکن ہو؟ وٹامن۔ نیند نہ آئے؟ گولی۔ غم ہو؟ اینٹی ڈپریسنٹ۔ لیکن کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ تھکن کیوں ہے؟ نیند کیوں نہیں آ رہی؟ دل اداس کیوں ہے؟

دوا: عارضی سکون، مستقل غلامی

آج پاکستان میں ادویات کی مارکیٹ اربوں روپے کی ہے۔ اسپتال بھرے ہوئے ہیں، فارمیسیز 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں، اور ادویات بنانے والی کمپنیاں ریکارڈ منافع کماتی ہیں۔

کیا ہم واقعی اتنے بیمار ہو گئے ہیں؟ یا ہمیں بیمار بنایا جا رہا ہے؟

ہر گلی میں کلینک، ہر چینل پر میڈیکل اشتہار، ہر درد کے لیے نئی دوا۔ لیکن اگر دوائیں واقعی شفا بخش ہوتیں تو بیماری کیوں بڑھ رہی ہے؟ کیونکہ آج دوا کا مقصد علاج نہیں، کاروبار ہے۔

میں دوا کے خلاف نہیں، بلکہ اندھی وابستگی کے خلاف ہوں۔ وہ دوائیں جو کبھی ایمرجنسی کے لیے تھیں، آج روزمرہ کا سہارا بن گئی ہیں۔

جسم: قدرت کا شاہکار

قدرت نے انسانی جسم کو ناقابلِ یقین صلاحیتوں کے ساتھ بنایا ہے۔ زخم خود بھر جاتے ہیں، ہڈی خود جڑ جاتی ہے، مدافعتی نظام خود جراثیم کا مقابلہ کرتا ہے۔

تو پھر ہم جسم پر شک کیوں کرتے ہیں اور کیمیائی دواؤں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں؟ ہم اپنی خود کی طاقت کو گولیوں سے دباتے ہیں۔

خوراک: دوا سے بڑی شفا

ہپوکریٹس نے صدیوں پہلے کہا:
"خوراک کو اپنا علاج بناؤ”

لیکن ہم نے پراسیسڈ فوڈ، سفید آٹا، ریفائنڈ شکر اور فیکٹری آئل کو اپنا معمول بنا لیا۔ صحت پلیٹ سے سپلیمنٹس میں چلی گئی۔ سادہ، دیسی کھانے—دال، سبزی، انڈا، دہی، محدود مقدار میں دیسی گھی—یہ دوا نہیں بلکہ نعمت ہیں۔

ورزش: وہ دوا جو کوئی بیچ نہیں سکتا

ورزش وہ واحد علاج ہے جس پر کوئی کمپنی پیٹنٹ نہیں لے سکتی۔ چلنا، سانس لینا، پسینہ آنا—یہ سب عمل جسم کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں۔ ہم لفٹ کے بغیر ایک منزل نہیں چڑھ سکتے اور پھر دل کے مریض بن کر حیران ہوتے ہیں۔

قدرتی ٹوٹکے: خاموش مگر مؤثر

ہمارے گھروں میں صدیوں سے آزمودہ حکمت موجود ہے: ادرک، لہسن، ہلدی، شہد، کلونجی۔ جدید سائنس اب اس بات کی تصدیق کر رہی ہے جو ہمارے بزرگ پہلے سے جانتے تھے۔ لیکن یاد رکھیں: قدرتی چیز بھی تب ہی فائدہ دیتی ہے جب طرزِ زندگی درست ہو۔

ادویات مافیا: سفید کوٹ، سیاہ کاروبار

کچھ کمپنیاں بیمار انسان نہیں، مستقل گاہک چاہتی ہیں۔ وہ علاج نہیں، maintenance plan بیچتی ہیں۔ دوا جو واقعی بیماری ختم کرے، کاروبار کے لیے خطرہ ہے۔ ڈاکٹر پریشر میں ہیں، مریض الجھن میں، اور منافع یقینی۔ یہ الزام نہیں، حقیقت ہے۔

اصل انقلاب: شعور

انقلاب سڑکوں پر نہیں آئے گا، بلکہ باورچی خانوں، کمروں اور چلنے کے راستوں پر آئے گا۔ جب انسان خود پوچھے: "کیا مجھے واقعی یہ دوا چاہیے؟” "کیا میں اپنی خوراک درست کر سکتا ہوں؟” "کیا میں روزانہ 30 منٹ جسم کو دے سکتا ہوں؟”—تب ادویات مافیا خود کمزور ہو جائے گا۔

نتیجہ: دوا سے پہلے زندگی

دوا آخری حل ہو، پہلا نہیں۔ خوراک، حرکت، نیند اور سکون—یہ چار ستون مضبوط ہوں تو بیماری کو جگہ نہیں ملتی۔

یہ دوا کے خلاف نہیں، بلکہ زندگی کے حق میں ہے۔ ہمیں واپس جانا ہوگا قدرت، سادگی اور شعور کی طرف۔ زندگی دوا سے نہیں، بلکہ طرزِ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.