سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ چار سینیٹرز مختلف آن لائن فراڈ گروہوں کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں۔ متاثرہ سینیٹرز میں بلال خان مندوخیل، سیف اللہ ابڑو، دلاور خان اور فلک ناز چترالی شامل ہیں۔ اجلاس میں سینیٹرز نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق کمیٹی اجلاس میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے اندرونی معاملات اور کرپشن کے الزامات پر بھی بحث ہوئی۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین سینیٹر فیصل سلیم رحمانی نے کی، جنہوں نے بتایا کہ انہیں بھی ہیکرز کی کال موصول ہوئی تھی۔ ہیکرز نے متعدد اراکین پارلیمنٹ کو آن لائن دھوکے سے لاکھوں روپے سے محروم کیا۔
راولپنڈی سیف اینڈ اسمارٹ ریلوے اسٹیشن کا افتتاح کر دیا گیا
سینیٹر سیف اللہ ابڑو کے مطابق ہیکرز پانچ سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے تک رقم مانگتے ہیں، جب کہ دلاور خان سے ساڑھے آٹھ لاکھ اور فلک ناز چترالی سے دو قسطوں میں پانچ لاکھ روپے ہتھیائے گئے۔ خاتون سینیٹر کے مطابق ہیکرز نے خود کو کونسلنگ سینٹر کے نمائندے ظاہر کیا اور ان کے اہل خانہ کا مکمل ڈیٹا رکھتے تھے۔
کمیٹی کے ارکان نے شکایت کی کہ این سی سی آئی اے میں درخواستوں کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ ڈی جی این سی سی آئی اے سید خرم علی نے بریفنگ میں اعتراف کیا کہ ادارے میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور کہا کہ تین ماہ کے اندر نئے افسران تعینات کیے جائیں گے جبکہ ادارے کو مکمل فعال کرنے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔
اجلاس میں شہریوں کا ڈیٹا لیک ہونے کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال پر ڈی جی این سی سی آئی اے نے بتایا کہ اس ضمن میں 851 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں اور ٹیلی کام کمپنیوں کے ساتھ مل کر تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم ڈیٹا لیک کی تفتیش کے لیے وزیرِ داخلہ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی سے متعلق ڈی جی اور اسپیشل سیکرٹری داخلہ لاعلم نکلے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر محمد اسلم ابڑو کے بھائی اور بھتیجے کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے آئی جی سندھ اور بلوچستان کے اجلاس میں نہ آنے پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے دونوں افسران کو سخت نوٹسز جاری کرنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے حکم دیا کہ سینیٹر اسلم ابڑو اور سیف اللہ ابڑو کو فوری طور پر سیکیورٹی فراہم کی جائے۔