پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی اور چیلنجز….ڈاکٹر زین اللہ خٹک

شور نہیں شعور قسط ایک سو چوون

قیامِ پاکستان کے بعد سب سے اہم قومی ضرورت ایک ایسا آئینی ڈھانچہ بنانا تھا جو نہ صرف عوام کی نمائندگی کرتا بلکہ ریاست کی اسلامی اور جمہوری نوعیت کو واضح کرتا۔ اس مقصد کے لیے دستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی، مگر بدقسمتی سے یہ اسمبلی جلد ہی داخلی خلفشار، قائدانہ بحران، اور بیوروکریسی و اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا شکار ہو گئی۔ 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا افتتاح ہوا۔قائداعظم محمد علی جناح صدر یعنی سپیکر منتخب ہوئے ۔ اس کے بنیادی مقاصد اور فرائض کچھ یوں تھے ،کہ مستقل آئین کی تدوین
عارضی قانون سازی
ریاستی اداروں کی تشکیل و نگرانی
ان کےارکان میں برطانوی انڈیا کی تقسیم کے بعد منتخب شدہ مسلم لیگ کے اراکین اور کچھ اقلیتوں کے نمائندے شامل تھے۔

قائداعظم کا کردار بطور سپیکر/ صدر اسمبلی

قائداعظم نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں مذہبی رواداری، قانون کی حکمرانی اور ریاستی غیرجانبداری کا واضح اعلان کیا۔ انہوں نے اسمبلی کو ایک آئینی، جمہوری، اور عوامی ادارہ بنانے کی بنیاد رکھی۔
مگر ان کی وفات (11 ستمبر 1948) کے بعد اسمبلی قیادت سے محروم ہو گئی۔
دستور سازی میں تاخیر کی وجوہات میں سر فہرست قیادت کا بحران تھا لیاقت علی خان کے بعد قیادت تجربہ کار اور نظریاتی بصیرت سے محروم ہو گئی۔ مشترکہ و جداگانہ انتخاب کا تنازع بھی تھا ۔ جس کی وجہ سے اتفاق مشکل ہوگیا تھا ۔اقلیتوں کے تحفظ اور اسلامی ریاست کے تقاضوں کے درمیان کشمکش۔ دوسری طرف
مذہبی جماعتوں کا دباؤ جن کو اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی ۔ اور ان مذہبی جماعتوں کے تعاون سے قرار داد مقاصد اسمبلی سے منظور کرایا گیا ۔ عجیب بات ہے کہ قانون کی منظور نہ ہوسکی لیکن مذہبی چورن کی منظوری ہوئی ۔قراردادِ مقاصد (1949) کے بعد سیکولر اور اقلیتی آوازیں کمزور پڑ گئی ۔ صوبائی اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے ، مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) آبادی میں اکثریت رکھتا تھا مگر مغربی پاکستان اقتدار پر حاوی تھا۔ "ون یونٹ” جیسے فارمولے سے مشرقی پاکستان میں محرومی کا احساس پیدا ہوا۔اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا کردار مایوس کن رہا ۔ غلام محمد، اسکندر مرزا جیسے بیوروکریٹس نے اسمبلی کو کمزور کیا۔ عدلیہ نے بھی "نظریۂ ضرورت” کے تحت غیر جمہوری اقدامات کو جائز قرار دیا۔ اور ان کو فوج کی حمایت حاصل تھی ۔ یوں پہلی اسمبلی 1954 میں تحلیل ہوئی ۔گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ یہ اقدام غیر آئینی تھا مگر عدلیہ (جسٹس منیر) نے مولوی تمیزالدین کیس میں اسے نظریۂ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا پاکستان کی جمہوری بنیادوں کو سخت نقصان پہنچا طاقت کا مرکز منتخب نمائندے نہیں بلکہ فوج بن گئی ۔ آئندہ آنے والے سیاسی بحرانوں کی جڑ یہی فیصلہ تھا
قراردادِ مقاصد (1949) ایک متنازع موڑ جس نے مزید مسائل کو جنم دیا ۔اس قرارداد نے ریاست کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن اس نے اقلیتوں کو غیر محفوظ محسوس کرایا۔جمہوریت اور تھیوکریسی کے درمیان توازن بگڑ گیا۔ مستقل آئین کی تیاری میں 9 سال لگے
جمہوری نظام کی جگہ بیوروکریسی فوجی اتحاد نے اقتدار سنبھال لیا مذہبی، لسانی اور صوبائی اختلافات میں اضافہ ہوا۔ سیاسی جماعتیں کمزور ہوئیں اور اسٹیبلشمنٹ پر انحصار بڑھتا گیا پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی ایک سنہری موقع تھا کہ ہم ایک مضبوط، عوامی، اور جمہوری آئین بناتے، مگر قیادت کی کمی، مذہبی و لسانی تنازعات، اور ادارہ جاتی مداخلتوں نے اس موقع کو ضائع کر دیا۔
اسمبلی کی تحلیل نے پاکستان میں جمہوریت کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے راج کی بنیاد رکھ دی۔ ایک ایسا راستہ جس کے اثرات آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔

Comments are closed.