مشکور بھائی نے یاد کرایا آج امجد اسلام امجد کی سالگرہ تھی۔مشکور علی نے ایک انتہائی شاندار ، ادبی لینگوئج میں امجد اسلام امجد کو خراج عقیدت پیش کیا۔وہ ایک لٹریری آدمی ہیں یقیناً ان کا لکھنے کا اپنا انداز ہے۔ان کی ۔۔۔۔۔۔۔۔مکمل تحریر پڑھیں

0
مشکور بھائی نے یاد کرایا آج امجد اسلام امجد کی سالگرہ تھی۔مشکور علی نے ایک انتہائی شاندار ، ادبی لینگوئج میں امجد اسلام امجد کو خراج عقیدت پیش کیا۔وہ ایک لٹریری آدمی ہیں یقیناً ان کا لکھنے کا اپنا انداز ہے۔ان کی پوسٹ دیکھ کے خوشی ہوئی کہ یقیناً ابھی بھی ایسے پیارے لوگ موجود ہیں جو کسی سے گلہ کئے بغیر اپنا کام خاموشی سے کررھے ہیں۔وہ اپنا حق ادا کررھے ہیں۔
امجد اسلام امجد کہتا ہے۔۔۔
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا۔سوچ کی وسعت دیکھیں اور محبت کی ڈیفینیشن دیکھیں آپ۔
اس سے اچھی محبت کی ڈیفینیشن کوئی کرہی نہیں سکتا۔۔۔
امجد اسلام امجد جیسے لوگ جہاں پیدا ہوتے ہیں بے شک وہ خطہ بڑے مقدروں والا ہوتا ہے۔ہم بہت خوش قسمت لوگ ہیں کہ کیسے کیسے لوگ اس خطہ میں پیدا ہوئے۔
لیکن ہمارے روئیوں سے ،ہماری مادہ پرستانہ سوچ سے ہمارے بدلتے ہوئے معاشرتی روئیوں کو دیکھ کے کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ ایسے لوگ ہم میں پیدا ہی نہیں ہونے چاہیں تھے۔کیونکہ ہم نے ان لوگوں کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حق دار تھے۔ہم نے کونسا امجد اسلام امجد کی زندگی میں ان کی سالگرہ منائی جو مرنے کے بعد بھی ان کو یاد رکھیں۔
ہم عجیب لوگ ہیں۔جن کی قدر کرنا ہوتی ہے ان کی قدر نہیں کرتے پھر ان کی بھی قدر کرنا پڑتی ہے جن کی ہم قدر کرنا نہیں چاھتے۔کہتے ہیں زندگی ایک پہیلی ہے۔میں متفق نہیں ہوں۔پہیلی چالیس سے پہلے تک ہوتی ہے چالیس کراس کرجاو تو زندگی کی سمجھ آنے لگتی ہے۔امجد اسلام امجد ایک بڑا آدمی تھا ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔وہ ایک اچھا شاعر تھا کہ اچھا نثر نگار۔کوئی مجھے بتائے میں تو ابھی تک نہیں فیصلہ کرپایا۔شاعری پڑھو تو لگتا ہے کہ وہ شاعر بڑا تھا۔نثر دیکھو تو بندہ اس میں گم ہوجاتا ہے۔
وارث ،فشار ،دن تک کونسا ڈرامہ ہے جو امجد اسلام امجد نے لکھا اور لوگوں نے پسند نہیں کیا۔
شاعری ایسی کمال کی کہ بندہ کھو جاتا ہے خوابوں کے کسی جزیرے میں گم ہوجاتا ہے ۔۔۔اگرچہ امجد اسلام امجد اب منوں مٹی تلے ہے۔لیکن وہ سب کے دلوں میں زندہ ہے۔اور زندہ رھے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ بڑے لوگ اب شہروں میں کم اور قبرستانوں میں زیادہ جا بسے ہیں۔لاہور کا میانی صاحب کا قبرستان ہو یا اسلام آباد کا ایچ ایٹ اور الیون والا قبرستان۔آپ دیکھ لیں۔آپ کو محسوس ہوگا کہ بڑے لوگ ادھر زیادہ ہیں۔بڑے لوگ اب نایاب ہوتے جارھے ہیں۔شہروں میں بھیڑ رش اور ہجوم تو ہے لیکن وہ روایتی ،ادبی ،انقلابی لوگ اب نہیں ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ
بڑے لوگوں کو ان کی زندگی میں نہ ہم بڑا مانتے ہیں اور نہ ان کی زندگی میں ان کی قدر کرتے ہیں۔وہ قدر جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔
لیکن
جب وہ مرجاتے ہیں تو پھر ان کی اچھائیاں گننے لگتے ہیں۔لیکن ان کی زندگی میں بس ان کی خامیاں اور ان کے سکینڈل ہی نظر آتے ہیں۔امجد اسلام امجد تو ایسا تھا کہ اس کا کوئی سکینڈل بھی نہ بن سکا۔
جتنی جیا عزت سے جیا۔اور خاموشی سے چلا گیا۔۔۔
یقین جانیں یہ لوگ سرمایہ ہوتے ہیں اور ہم نے یہ سرمایہ کھو دیا ہے۔
امجد اسلام امجد خود کہتا ہے کہ
” تیرے شہر میں میرے ہمسفر وہ دکھوں کاجم غفیر تھا”
"مجھے راستہ نہیں مل سکا میری بات بیچ میں رہ گئی۔”
دھیمی سی آواز میں وہ ایسی بات کرجاتا کہ دل چیر کے رکھ دیتا۔
"کہنے کو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں
امجد مگر وہ شخص مجھے بھولتا نہیں”
آگے سنیں۔۔۔
"جس تنہا سے پیڑ کے نیچے ہم بارش میں بھیگے تھے
تم بھی اس کو چھو کے گزرنا میں بھی اس سے لپٹوں گا”
یہ امجد اسلام امجد ہی لکھ سکتا تھا۔
مجھے تو امجد اسلام امجد جب یاد آئیں تو
بس ان کی یہ باتیں سکون دیتی ہیں شاید انہوں نے اپنے سب محبت کرنے والوں کے لئے ہی لکھا تھا۔۔۔
"اگر کبھی میری یاد ائے۔۔
تو چاند راتوں کی دِلگیر روشنی میں،
کِسی ستارے کو دیکھ لینا۔۔
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر،
تمہارے قدموں میں آ گِرے تو،
یہ جان لینا۔۔
وہ استعارہ تھا میرے دِل کا،
اگر نہ آئے،
مگر یہ ممکن ہی کِس طرح ہے؟
کہ تم کِسی پر نگاہ ڈالو،
تو اُس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے،
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے۔۔!
اگر کبھی میری یادآئے۔۔
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا،
میں خوشبوئوں میں تمہیں مِلوں گا،
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا،
میں اَوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں مِلوں گا،
اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں ، خوشبوئوں میں نہ پائو مجھ کو،
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا۔۔
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں مِلوں گا۔۔
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا،
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بِکھر چُکا ہوں۔۔
تم اپنے ہاتھوں سے اُن پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا۔۔
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا۔۔
کِسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رُک کے تم کو صدائیں دوں گا۔۔
سمندروں کے سفر پہ نکلو تو اُس جزیرے پہ بھی اُترنا!”
اس کے بعد کیا لکھوں میں۔۔۔۔
آواز
شہزاد علی اکبر
Leave A Reply

Your email address will not be published.