ایران سے جنگ میں نیتن یاہو نے جادو ٹونے کا سہارا لیا: ایرانی صحافی کا دعویٰ

0

ایران کے ایک معروف صحافی اور پاسدارانِ انقلاب سے وابستہ اخبار ’جوان‘ کے سابق ایڈیٹر عبداللہ گنجی نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران کے ساتھ جنگ کے دوران جادو ٹونے اور مافوق الفطرت قوتوں کا سہارا لیا۔

عبداللہ گنجی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ حالیہ ایران-اسرائیل کشیدگی کے دوران تہران کی سڑکوں پر کچھ کاغذی تعویذ ملے، جن پر مبینہ طور پر یہودی علامات موجود تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تعویذ جنگ کے ابتدائی دنوں میں غزہ پر حملوں کے دوران پائے گئے، اور ان کے مطابق یہ نیتن یاہو کے ان مبینہ اقدامات کی نشان دہی کرتے ہیں جو غیبی قوتوں سے مدد لینے کے لیے کیے گئے۔

گنجی نے مزید دعویٰ کیا کہ ماضی میں ایسی رپورٹس بھی سامنے آ چکی ہیں کہ نیتن یاہو نے جادوگری کے ماہرین سے ملاقات کی تھی، جن کی خدمات جنگی حکمت عملیوں میں استعمال کی گئیں۔


موساد کا طنزیہ جواب

ایرانی صحافی کی اس ٹوئٹ پر اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ایک فارسی زبان کے آفیشل اکاؤنٹ "موساد فارسی” کی جانب سے ردعمل بھی سامنے آیا۔ موساد نے ٹوئٹ میں طنز کرتے ہوئے لکھا:

"منشیات کا استعمال اور جنوں سے گفتگو کسی ملک کے سربراہ کے شایانِ شان نہیں۔”

یہ بیان نہ صرف گنجی کے دعوے پر طنزیہ وار تھا بلکہ اس سے اسرائیلی حلقوں کی سنجیدہ تردید کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔


اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمائندے کا تبصرہ

اس معاملے پر اقوام متحدہ میں اسرائیل کے نمائندے ولید گدبان نے بھی ردعمل دیتے ہوئے موساد کی ٹوئٹ کو ری شیئر کیا اور لکھا:

"جن، بھوت تو ہر جگہ موجود ہیں۔”

ان کا یہ تبصرہ معاملے کو مزید مزاحیہ اور غیر سنجیدہ رنگ دے گیا، جس پر سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا۔


تجزیہ: دعویٰ، حقیقت یا پروپیگنڈا؟

سیاسی مبصرین کے مطابق عبداللہ گنجی کا یہ بیان ایک سیاسی حربہ ہو سکتا ہے، جو اسرائیل کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکانے یا نفسیاتی جنگ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسے دعوے نہ صرف دشمن ملک کی قیادت کو غیر سنجیدہ بنانے کی کوشش ہوتے ہیں، بلکہ ان کے ذریعے ثقافتی اور مذہبی حساسیت کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ادھر اسرائیلی حلقے اس دعوے کو مکمل طور پر بے بنیاد اور طنز کے قابل قرار دے رہے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.