بھارت میں وقف املاک کی تاریخ مسلم حکمرانوں کے دور سے جڑی ہوئی ہے۔ بادشاہوں، نوابوں اور صاحب حیثیت مسلمانوں نے خدا کی رضا کے لیے نہ صرف اپنی جائیدادوں کا کچھ حصہ بلکہ مکمل زمینیں، باغات، مکان اور کاروباری املاک بھی وقف کیں۔ یہ عمل محض مذہبی جذبہ نہیں بلکہ ایک سماجی فلاحی نظام کی بنیاد تھا، جس سے مساجد، خانقاہیں، امام بارگاہیں، قبرستان، مدارس اور یتیموں و بیواؤں کی کفالت جیسے شعبے پروان چڑھے۔

آزادی کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے مذہبی، سماجی اور تعلیمی مراکز کو تحفظ دینے کے لیے وقف ایکٹ تشکیل دیا گیا۔ ہر ریاست میں وقف بورڈ بنائے گئے جن میں مسلم دانشوروں، علما، وکلا اور سماجی شخصیات کو شامل کیا گیا۔ لیکن حالیہ برسوں میں وقف املاک کو جس انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس نے بھارت کے مسلمانوں کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے لوک سبھا میں پیش کیا گیا "وقف ترمیمی بل” کئی اہم سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس بل کا مقصد وقف بورڈ کی من مانی کو روکنا، شفافیت لانا اور جائیدادوں کو لینڈ مافیا سے بچانا ہے، لیکن دوسری طرف اپوزیشن، مسلم جماعتیں اور ماہرین قانون اسے مسلمانوں کی مذہبی شناخت پر حملہ تصور کر رہے ہیں۔
وقف بورڈ کے تحت 9.4 لاکھ ایکڑ سے زائد زمین ہے، جو ملک میں وزارت دفاع اور ریلوے کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے بڑی زمین ہے۔ ان جائیدادوں میں قبرستان، مساجد، مدارس، خانقاہیں، درگاہیں، امام بارگاہیں اور کاروباری نوعیت کی زمینیں شامل ہیں۔ وامسی پورٹل کے مطابق، ان میں سے صرف 39 فیصد جائیدادیں ہی تنازع سے پاک ہیں، جبکہ ہزاروں پر تجاوزات، قانونی چارہ جوئی اور حکومتی قبضے کی شکایات موجود ہیں۔
وقف ایک ایسی جائیداد ہے جو اللہ کے نام پر ہمیشہ کے لیے مخصوص کر دی جاتی ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ بھی اس بات کی توثیق کر چکی ہے کہ "ایک بار وقف ہو جانے والی جائیداد ہمیشہ کے لیے وقف رہتی ہے”۔ اسے نہ بیچا جا سکتا ہے، نہ لیز پر دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی فرد یا ادارے کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں جب حکومت ان جائیدادوں پر نیا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو یہ محض انتظامی قدم نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کی مذہبی و سماجی شناخت پر وار محسوس ہوتا ہے۔ معروف شیعہ عالم مولانا کلبِ جواد نے بجا سوال اٹھایا کہ اگر وقف املاک کو حکومت کے زیر اثر لایا جا سکتا ہے تو پھر مندروں میں جمع سونے کے ذخائر کو ریزرو بینک کے حوالے کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
بل کے خلاف متعدد مسلم تنظیموں، علما اور سماجی کارکنان نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے لے کر چھوٹی علاقائی جماعتیں اس ترمیم کو مسلمانوں کی املاک پر قبضے کی ایک "ریاستی اسکیم” قرار دے رہی ہیں۔ دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد، کولکتہ اور بنگلور جیسے شہروں میں عوامی احتجاج بڑھتا جا رہا ہے۔
بھارت ایک کثیر المذاہب، جمہوری اور سیکولر ریاست ہے، جہاں ہر شہری کو اپنے مذہب، عقیدے اور عبادت گاہوں کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ لیکن وقف املاک پر مسلسل بڑھتی ہوئی سرکاری مداخلت، ایک اقلیت کے مذہبی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
یہ صرف زمین کا مسئلہ نہیں، بلکہ ورثے، وقار اور آئینی حق کا سوال ہے۔
اگر یہ رجحان اسی انداز میں جاری رہا، تو بھارت میں مسلمانوں کے لیے نہ صرف عبادت گاہیں اور فلاحی ادارے کمزور ہوں گے، بلکہ ان کی اجتماعی شناخت بھی سوالیہ نشان بن جائے گی۔
