
آزادکشمیر کے وزیراعظم نے حالیہ دنوں میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آزادکشمیر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور مختلف مقامات پر مسائل کا جائزہ لیا۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اگر گولہ باری نہ ہوتی تو یہاں پر سول ڈیفنس کے مطالبات نہ ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ آزادکشمیر کی مذہبی اور سیاسی قیادت اپنے روایتی طریقوں سے باہر نکلے اور اپنی ترجیحات کو بدل کر اجتماعی طور پر اصلاحات کی طرف قدم بڑھائیں۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ اگر زندگی کی حرمت کو یقینی بنانا ہے تو روایتی سیاست سے باہر نکلنا ضروری ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے ادوار میں نہ صرف تحصیلیں اور سب ڈویژنز بنائے گئے بلکہ چھوٹے انتظامی یونٹس بھی بنائے گئے، جو کسی مہذب ملک میں نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے سب ڈویژنز بنانے سے حکومت کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وسائل ضائع ہوتے ہیں۔
انہوں نے حکومتی اصلاحات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آزادکشمیر حکومت نے اپنے 53 پولیس اسٹیشنز میں 200 رضاکار بھرتی کیے ہیں تاکہ شہری دفاع اور ریسکیو کی خدمات کو فعال کیا جا سکے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ سیاسی مجبوریاں ہمیشہ سے رہی ہیں، لیکن موجودہ حکومت نے ان سیاسی تقرریوں سے بچتے ہوئے پروفیشنل ازم کو فروغ دیا ہے۔
ایل او سی کے متاثرین کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے معاونت کی درخواست کی تھی، جس کے بعد وفاقی حکومت نے ان کے مطالبات پر مثبت ردعمل دیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شہداء کے لیے معاوضہ بڑھانے کے لیے ایک کروڑ روپے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ جلد بازی میں اعلانات کیے جائیں، تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ جب مالی معاونت کی چیک ملیں گے، تو ان کو شہداء کے حوالے کر دیا جائے گا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آزادکشمیر کی حکومت نے اپنی تمام تر نیک نیتی کے ساتھ متاثرین کی مدد کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا ہے۔
آزادکشمیر میں حکومتی اصلاحات اور اقدامات پر وزیراعظم کا یہ بیان اس بات کا غماز ہے کہ وہ نہ صرف مسائل کے حل کے لیے متحرک ہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے بھی نئے انداز میں کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
