تازہ ترینکالمز

رمضان المبارک اور چوھدری رحمت علی کا نعرہ انقلاب

محمد الطاف لاھور

سب سے پہلے چودھرری رحمت علی کا اپنا شعر ملاحظہ کیجئے کس قدر ان کے دل کے اندر انقلاب کا جذبہ موجود تھا

ہوگا ایک دن بارگاہ حق میں باریاب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

انگریزوں سے ازادی حاصل کرنے کے بعد بر صغیر کے تمام لوگ متحدہ ہندوستان کی طرف راغب ھو تے جا رھے تھے اس وقت چوہدری رحمت علی نے بزمی شبلی لاھور کے اجلاس 1915 میں ایک ہی نعرے سے قومیت کا مسئلہ حل کر دیا اور وہ نعرہ تھا ہم مسلمان ہیں؛ہم 632 ہجری سے جو وحی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہم اس پر ایمان لا چکے ہیں اور ہم مسلمان ہیں ہم اپنے اسلام ہی کے نظریات کا تحفظ کریں گے کتنے سادہ سے الفاظ میں کتنی بڑی بات سمجھا دی
ہم اسلامی انقلاب کے لیے جد و جہد کریں گے
باقی اقلیتیں بھی اپنے اپنے نظریات پر اپنے اپنے مذہب کے انقلاب کے لیے کوشش کر سکتی ہیں ہندو اگر چاہیں تو وہ ہندو انقلاب کے لیے اپنی جدوجہد کریں مگر ہم دیکھیں گے کہ اس میں کامیاب کون ہوتا ہے یہ الفاظ چوہدری رحمت علی کے بزم! شبلی کے اجلاس 1915 میں اپنے اسلامیہ کالج لاہور کے انقلابی دوستوں کے سامنے کہے گئے جب انکی عمر 18 سال تھی انکے الفاظ تھے کہ
"””” مسلمان ہونے کے ناطے اسلام اور اس کے نظریات کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسی ہی کا پرچار ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے "”””
مگر اس سب کے باوجود برصغیر کے اندر چوہدری رحمت علی نے دوبارہ سے سوئی ہوئی مسلم قوم کو جگایا اور اسلامی انقلاب کا نعرہ زندہ کیا تاکہ مسلمان اپنے اصل اسلام اور جذبہ جہاد کی طرف رجوع کر سکیں اور اپنے اپ کو اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے ساتھ جوڑ کر دنیا کے سامنے اپنی حقیقی تصویر پیش کر سکیں ثابت کر دیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اسلام ھی ہی سچا مذھب ہے
مگر اج ہم سب مسلمان اسلامی انقلاب کے نعرے سے کوسوں دور ہیں شاید بطور مسلمان ہمیں اسلامی انقلاب کا حقیقی مطلب اور مفہوم بھی معلوم نہ ہو دراصل یہی وہ مسلم قو میت کا نعرہ تھا جسکی بنیاد پر پوری قوم ہجوم سے قوم بنیں اور تحریک پاکستان کی آزادی کیلئے یہ یہ نعرہ مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی قوت اور طاقت ثابت ہوا
اسی نعرہ اسلامی انقلاب کے بدولت حصول پاکستان کی منزل کا سفر مکمل ھوا اور بہت ہی کٹھن راستوں سے گزرتے ہوئے مطالبہ پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا
پاکستان دنیا کے نقشے کے اوپر ایک ازاد ملک ہی نہیں بلکہ ایک اسلامی فلاحی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام پر وجود میں ایا
یہی وہ چودھرری رحمت علی کا نعرہ اسلامی انقلاب تھا کہ اج ہم ایک ازاد ملک پاکستان کے اندر ازادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں مگر اسلام کا جو حقیقی خواب اسلامی انقلاب وہ شرمندہ تعبیر نہ کر سکے جس کا وعدہ ہم نے برصغیر میں مطالبہ حصول پاکستان کے وقت پوری دنیا کے سامنےرکھا تھا کہ ہم یہ ملک اس لیے حاصل کر رہے ہیں کہ ہم اس کے اندر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اعلی نظام زندگی اور اسلامی فلاحی مملکت دنیا کے سامنے پیش کریں گے جو اسلام کے اصولوں پر قائم ہوں گی

حصول پاکستان کے بعد پاکستان کے اندر اسلامی انقلاب کی جدوجہد کو ہر سطح پر ترک کر دیا گیا ہےبلکہ اب تو اسلام بھی ہماری زندگیوں میں صرف زبانی کلامی یعنی اسلام نام کی چیز رہ گئی ہے ہمارے دلوں کے اندر اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی اہمیت بالکل ماند پڑ چکی ہے ہم نے رھن سہن یعنی کلچر غیروں کا اپنا لیا تہذیب غیروں کی اپنا لی معیشت غیر اسلامی پر تکیہ کیا ھوا ھے
چوہدری رحمت علی کا اسلامی انقلاب کا نعرہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے تھا معیشت میں انقلاب کے لیے تھااسلامی طرز زندگی اختیار کرنے میں انقلاب کا نعرہ تھا
چودری رحمت علی کا یہ فرمان تھا کہ اگر اسلام کو ہم نے اپنے زندگی کے ہر گوشے پر نافذ نہ کیا تو اس کا سبب سوائے انتشار کہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ہم مسلم قومیت کی بنیاد پر مسلم کلچر کی بنیاد پر ہی اپنے اپ کو ایک قوم بنا سکتے ہیں
معاشرت میں اسلامی انقلاب کے لیے کہ سیاست میں اسلامی انقلاب کی بات کی جاتی تھیں گویا کہ تحریک ازادی پاکستان کے اندر اسلام زندگی کے ہر گوشے میں زیر بحث بھی تھا اور زندگی میں اسے اپنایا جانا بھی سب سے اہم سمجھا جاتا تھا

ہماری بدقسمتی اج کل یہ بن چکی ہے کہ کوئی ادمی اپنی سیاست میں اسلامی طرز سیاست کی بات کرتا ہے تو اسے برا سمجھا جا رھا ھے جبکہ سیاست میں ہی اسلامی طرز پر چلنے والا انسان معاشرے میں سب سے اچھی سیاست کا علمبردار ہوسکتا ہے

تعلیم و صحت کے میدان میں تو اسلامی انقلاب کے نعرے کی صدا موجود تھی
کیونکہ ریاست مدینہ ہی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی فلاحی ریاست تھی اور ریاست مدینہ ھی کے اصول پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کی ضامن ھے
جسے اب پوری دنیا تسلیم کر چکی ھے اور اپنا رھی ھے
کیونکہ اسلامی طرز حکومت ھی میں آزادئ اظہار رائے کی سب سے زیادہ اجازت ھوتی ھے
یہاں خلیفہ وقت کو ایک عام ادمی بھی سوال کرتا ہے کہ اپ کے وسائل کم ہیں اپ نے یہ چیز کیسے حاصل کی گویا کہ احتساب کا سب سے بہترین نظام بھی اسلامی طرز حکومت کے ذریعے ھی ممکن ہے جس نظام میں احتساب ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتا ہے
یعنی جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل

بڑے عہدوں پر فائز لوگ ہر وقت عوام کے سامنے جواب دے ہوتے ہیں
ہمارے معاشرے کے اندر الٹی گنگا بہہ رہی ہے بڑوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور کمزور پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اس کی کوئی شنوائی نہیں ہے
"””نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ و برباد ہو گئیں کہ اگر کوئی بڑا جرم کرتا تو اسے! چھوڑ دیا جاتا اور اگر کوئی کمزور جرم کرتا تو وہ سزا پاتا بقول اقبال دعا ہی کر سکتے ہیں

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تیری عجب وقت ان پڑا ہے

وہ دین جو بڑی شان سے نکلا تھا عرب سے
پردیس میں اج کو غریب الغربا ھے

اسلامی انقلاب نظام عدل اجتماعی کا نام ہے اسلامی انقلاب نظام عدل اجتماعی کا پیغام ہے جس کے ذریعے سے ہی انسان انفرادی زندگی سے نکل کر اجتماعی زندگی پر مشتمل نظام کا حصہ بنتا ہے اور اپنے حقوق حاصل کرتا ہے یہی انسانی زندگی کی بقا ھے یہی طرز حکومت ایک بہتر معاشرے کے طور پر انسانوں کو انصاف فراہم کر سکتا ھے
اور یہ وہ نعرہ تھا جس نعرے کے ذریعے چودھرری رحمت علی نے انسانی مساوات کا پیغام پوری دنیا کو دیا لہذا
برصغیر کے اندر مسلمانوں نے چودھرری رحمت علی کے اس پیغام پر لبیک کہا اور اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہو گئے اور اس کا نتیجہ حصول پاکستان کی شکل میں سب کے سامنے ہے
چوہدری رحمت علی قران مجید کی جس ایت مبارک سے انتہا درجے کی محبت کیا کرتے تھے اس کا ترجمہ یہ ہے

"””خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو اپنی حالت خود بدلنے کا””””
جب تک ہم اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے خود میدان عمل میں نہیں اتریں گے حالات کی بہتری کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے
لہذا ہمارے معاشرے کے موجودہ حالات کے پیش نظر ہمیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کرنا ہوگی اور یہ جدوجہد اسی طرز پر کی جا سکتی ہے جس طرز پر پاکستان کی ازادی کی تحریک کی جنگ لڑی تھی اس لیے

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ھو جا

نہ تورانی رھے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

انفرادی طور پر دین اپنانے سے مسئلہ حل نہی ھو گا کیونکہ اسلام نام ھی اجتماعیت کی تعلیمات کا ھے
اجتماعی زندگی میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھی اسوہ حسنہ ھیں
ھماری موجودہ مذھبی جماعتوں کی وجہ سے آج امت مسلمہ انقلاب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف راستہ ھی بھول چکی ھے بلکہ اس خواب کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے بھی قاصر ھے
جبکہ ھمارا مسلکی اختلاف کسی سے ھو جائے تو ساری طاقت اسکو نیچہ دکھانے میں صرف کردی جاتی ھے جو کہ کسی صورت میں بھی دین کی خدمت نہی بلکہ خلاف دین ھے
اور ھماری اکثر مذھبی جماعتوں کی ساری توجہ ایک طرع سے انفرادی اعمال تعلیم وتربیت پر ھی مرکوز رھتی ھے جسکی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اسی جدو جہد کو اپنی دعوت کا مرکز و محور بنا لیا جاتا ھےجسکے نتیجہ میں معاشرہ اسلامی انقلاب جیسی اجتماعیت سے دور ھو تا گیا
کہنے اور سننے کی حد تک یہ بات سو فیصد درست معلوم ھوتی ھے کہ ھم خود ٹھیک ھو جائیں تو سب ٹھیک ھو جائیں گے اور غالبا یہی موقف ھماری اکثر تبلیغی جماعتوں کا ھے اسکے مقابلے میں جو اللہ پاک نے سلسلہ انبیاء رسل جاری فرمایا اسکا مقصد بھی بیان کردیا تاکہ ھم جیسے لوگوں کو دین کے معاملے میں کوئی غلط فہمی نہ رھے بقول قرآن
"”””
لقد ارسلنا رسلنا بالبینات وانزلنا معھم الکتاب والمیزان
لیقوم الناس بالقسط
ترجمہ
ھم نے رسولوں کو بھیجا واضع نشانیاں دے اور انکے ساتھ کتاب نازل کی اور میزان تاکہ لوگوں کو انصاف پر قائم رکھ سکیں

اگے فرمایا
وانزلنا حدید فیہ باسا شدید
ومنافع الناس
ھم نے لوھا بھی اتارا جس میں جنگ کی شدید قوت ھے اور لوگوں کا نفع بھی یعنی لوھے سے سامان زندگی بھی بنتا ھے مگر اسکا اصل مقصد جنگ کا سامان باطل کی سرکوبی ھے
اگے فرمایا
ولیعلم اللہ من ینصرہ ورسلہ با الغیب
تاکہ اللہ جان لے کون غیب میں رھتے ھوئے اللہ کی مدد کرتا ھے
اب اللہ کی مدد کیا اللہ کے نظام کا تحفظ اللہ کا نظام کیا قرآن اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر زندگی گزارنا
یہ انفرادی تقاضوں سے پورا ھو ھی نہی سکتا اس کیلئے اجتماعی زندگی کے ھر گوشے سے مانوس رھنا ضروری ھے
ھاں ترجیحات میں اپ کسی کو اچھا سمجھتے ھیں میں کسی کو اچھا سمجھتا ھوں
یہ تو اپنی اپنی اپروچ ھے

کہا منصور نے خدا ھوں میں ڈارون بولا کہ بوزنا ھوں میں
ھنس کر کہنے لگے میرے اک دوست
ھمت ھر کس بقدر اوست

اپنی اپنی استعداد اور اپروچ سے اگر کوشش ایک متعین منزل یعنی اسلامی انقلاب کی طرف ھو تو نتیجہ دونوں کوششوں کا ایک ھو سکتا ھے لیکن اگر کسی جماعت یا انفرادی شخصیت کے پروگرام میں اسلامی انقلاب شامل ھی نہ ھو تو پھر نتیجہ تو صفر ھی ھو گا
اسی لئے شاعر نے کہا تھا

افراد کے ھاتھوں میں ھے ملت کی تقدیر

ھر فرد ھے ملت کے مقدر کا ستارہ

 

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button