لندن:
گزشتہ سال لندن میں موبائل فون چوری اور چھینے جانے کے واقعات میں تیزی آئی اور تقریباً 80 ہزار سے زائد فون چوری یا چھینے گئے، جن میں سے بڑی تعداد غیر ملکی منڈیوں کو بھیجی جا رہی تھی۔
سعودی ولی عہد نے مکہ مکرمہ میں’کنگ سلمان گیٹ‘ منصوبے کا اعلان کردیا
میٹروپولیٹن پولیس نے حالیہ کارروائیوں میں منظم نیٹ ورک کو نشانہ بنایا اور شمالی لندن میں چھاپوں کے دوران تقریباً دو ہزار چوری شدہ ڈیوائسز اور بڑی رقم برآمد کی، جبکہ متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا۔
پولیس کے مطابق یہ وارداتیں محض گلی محلوں کی چھوٹی چوریاں نہیں رہیں بلکہ ایک صنعتی نوعیت کا منظم کاروبار بن چکی ہیں — چور، دکاندار اور بین الاقوامی اسمگلرز تین درجوں پر مشتمل نیٹ ورک کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس نیٹ ورک نے چوری شدہ فونز کو ہانگ کانگ، چین اور دیگر ممالک میں بھیجنے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ تفتیش اس وقت شروع ہوئی جب گزشتہ دسمبر میں ایک خاتون نے اپنے آئی فون کی لوکیشن ٹریک کر کے ہیتھرو کے قریب ایک گودام تک نشان دہی کی، جہاں سے ہانگ کانگ کے لیے روانہ کیے جانے والے کنٹینرز میں ایک ہزار سے زائد آئی فونز برآمد ہوئے۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر کارروائیاں شروع کیں۔
اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2024 سے فروری 2025 کے دوران فون چوری کے ایک لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، تاہم صرف چند سو افراد پر ہی فرد جرم عائد کی گئی، جس سے پولیس کے لیے شناخت اور گرفتاری سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ مجرمانہ کاروبار انتہائی منافع بخش ہے، ایک چور اوسطاً ایک فون سے چند سو پاؤنڈ کماتا ہے، جبکہ بیرونی منڈیوں میں ان فونز کی قیمت ہزاروں ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ حکام نے اس نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے مزید بین الاقوامی تعاون بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔