ایڈیٹوریل

ٹیکس: مگر تنخواہ بھی بڑھا دیجئے

پاکستان کا یہ حال ہے کہ ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کے بغیر ،ٹیچر ٹیوشن پڑھائے بغیرگھر نہیں چلا سکتا۔

انجینئر کمیشن لیے بغیر گزارا نہیں کر سکتا، بیوروکریٹ وائٹ کالر کرائم کیے بغیر اپنا سماجی اسٹیٹس مینٹین نہیںکر سکتا،پولیس رشوت اور کلرک مالی خرد برد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس میں قصور افسروں اور ملازمین کا نہیں ہے بلکہ حکومتی ارباب اختیار اور پالیسی سازوں کا ہے۔

حکومت جب بھاری بھرکم ٹیکسوں کی صورت مہنگائی کرتی ہے تب بھی نہیں سوچتی کہ تنخواہ دار طبقہ کیسے گزارا کرے گا؟ کبھی آپ نے غور کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتی کمیٹیوں میں وزراء اور افسران کے ساتھ بڑی کاروباری شخصیات کو کیوں شامل کیا جاتا ہے ؟یہ وہی شخصیات ہوتی ہیں جنہوں نے الیکشن میں انویسٹ کیا ہوتا ہے اور حکومت میں ان کو نوازا جاتا ہے۔

جو بھی حکومت آتی ہے اپنی مرضی کی ایمنسٹی سکیم لانچ کرکے چہیتے کاروباری حضرات کو راتوں رات اربوں کھربوں کے فائدے اور ٹیکس معاف کردیتے ہیں۔اس ساری لوٹ مار کا بوجھ نئے ٹیکسوں کی صورت غریب عوام اور سب سے بڑھ کر تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا جاتا ہے۔

حکومت نے اتنے زیادہ ٹیکسز لگا دیے ہیں کہ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافے کے بعد ٹیکس کٹوتی کرکے الٹا پچھلے سال سے کم تنخواہ ملی ہے۔ دیگر ممالک کی نسبت یہاں سب سے کم تنخواہ ملتی ہے لیکن سب سے زیادہ انکم ٹیکس بھی پاکستانی ادا کرتے ہیں۔

گلوبل انڈیکس میں شامل 96 ممالک میں پاکستان 94ویں نمبر پر ہے کہ جس کی ٹیکس کٹوتی کے بعد اوسط ماہانہ تنخواہ سب سے کم ہے۔ پاکستان سے نیچے صرف مصر اور کیوبا ہیں۔ حکومت نے بیوروکریسی کو اسٹیٹس تو اعلیٰ افسر کا دے دیا مگر تنخواہ اُس کا منہ چڑھا رہی ہوتی ہے۔کیا اتنی تنخواہ میں کسی بھی سرکاری افسر کے گھر کا بجٹ پورا ہو سکتا ہے؟

جناب وزیر اعظم حقیقت پسندی کی طرف آئیں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے تا کہ وہ بھی رزق حلال کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکیں۔ اگر ہم گریڈ 17 کے اسسٹنٹ کمشنر، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس، اسسٹنٹ کلیکٹرکسٹم اور اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس کے اختیارات دیکھیں تووہ بے پناہ قانونی طاقت رکھتے ہیں۔

وہ جسے چاہے کروڑوں اور اربوں کا فائدہ پہنچا سکتا اور اسی تناسب سے سرکاری خزانے کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ہمارا المیہ ہے کہ ہم گریڈ اٹھارہ کے اے ڈی سی آر ، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او لیول کے افسران کو تنخواہ تو دولاکھ روپے دیتے ہیں جبکہ کروڑوں اربوں روپے کی سرکاری زمینوں کا اختیار دے دیتے ہیں پھر وہ بھی اربوں روپے کی زمین کروڑوں اور کروڑوں والی لاکھوں میں من پسند افراد کو نیلام کر کے حصہ وصول کر سائڈ پر ہو جاتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے بلکہ احتساب کے اداروں کو مضبوط کیا جائے تاکہ مستحکم،خوشحال اور ترقی کرتے پاکستان کے خواب کی عملی تعبیر ممکن ہوسکے۔ جس ملک میں نوجوان بے روزگاری سے تنگ آکر ملک چھوڑنے یا خودکشی پر مجبور ہوں وہاں لگ بھگ 20لاکھ ماہانہ پر ریٹائرڈ ملازمین کو نوازا جارہا ہو وہاں کا اللہ ہی حافظ ہے۔

ریٹائرڈ افراد کو نوازنے کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ اگر تم ملک کی بجائے ہماری ذاتی خدمت کروگے تو بعد از ریٹائرمنٹ بھی عہدے اور بھاری بھرکم تنخواہوں پر تمہارا حق ہے۔

اگر سرکاری ملازمین کو ذرا سا بھی خوف ہو کہ ان کو سرکاری ملازمت میں کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کا موقع نہیں ملے گا تو پاکستانیوں کی اکثریت سرکاری ملازمت اختیار کرنا تو دور اتنی کم تنخواہ پر اپلائی کرکے بھی اپنا وقت ضائع نہ کریں۔

ذہین اور ایکسڑا آرڈنری صلاحیتوں کے حامل نوجوان پاکستان میں محدود تنخواہ کے باعث سرکاری ملازمت کی بجائے بزنس یا بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لیے سرکاری ملازمین کی اکثریت ایورج مائنڈ سیٹ اور نوکری پسند اذہان پر مشتمل ہے جبکہ چند بڑے گھروں کے بچے بھی صرف اس لیے بیوروکریسی اور سرکاری ملازمت کی طرف آتے ہیں کہ بس ششکااور تھانے کچہری کے کام ہوسکیں۔

بڑے خاندانی بیک گرائونڈ سے تعلق رکھنے والے افسران جو کرپشن کی بجائے صرف تنخواہ پر اکتفا کرتے ہیں انکی اکثریت آج بھی اپنے بڑوں سے پاکٹ منی لیتے اور ابا جی کے پیسوں سے شاپنگ کرتے ہیں کیونکہ وہ خود تواتنی تھوڑی تنخواہ پر سرکاری ملازمت کے حق میں نہیں صرف والدین کے پریشر پر انکے اثرورسوخ کو قائم رکھنے کیلئے نوکری کرتے ہیں تو صاف کہتے ہیں کہ گھر کے خرچے اور میری شاپنگ بھی ابا جی آپ کے ذمہ ہے۔گریڈ20 سے 22 تک سرکاری ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں، بہت سی نجی کمپنیز کے بورڈ ممبران کی کمائی کا محض چوتھائی حصہ ہیں۔

انگریزوں نے برصغیر میں صرف چند ہزارا فسروں کے ذریعہ کم وبیش ڈیڑھ صدی تک حکمرانی کی۔جبکہ ہمارا سیاسی نعرہ ہی یہی ہوتا ہے اتنے لاکھ نئی نوکریاں دے گے اور پھر واقعی ایسا ہوتا ہے ۔پاکستان میں جتنی بھی سیاسی حکومتیں آئیں سب نے صرف لوگوں کو اداروں میں بھرتی کیا ہے، یہ دیکھے بغیر کہ ان اداروں میں ان افراد کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں۔سیاسی ووٹ بینک پکا کرنے کیلئے سرکاری ملازمت کی رشوت دینا بند کرنا ہوگا۔ اپنی عیاشیوں کے لیے ملک گروی رکھ کر قرض لینا بند کرنا ہوگا اور بادشاہوں والی مراعات لینا اور دینا بند کر نا ہوں گی۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button