کیا اب پارٹیوں کی بجائے قومیت پر وزراء لینے چاہئے ؟ کیا ھم کچھ لوگوں کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے ایک بار پھر 90 کی دہائی میں اپنے صوبے کو لے جانا چاہتے ہیں ؟
تحریر:میر اسلم رند
ذرا جرآت کے ساتھ
پاکستان میں کئی دہائیوں سے دو پارٹی سسٹم رہا ہے قوم پرست پارٹیاں کچھ سیٹیں جیتتی رہی ہیں لیکن پچھلے 35 سالوں سے پاکستان میں پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن کی حکومتیں رہی ہیں تیسرے نمبر پر ایم کیو ایم یا جمعیت علماء اسلام کی اکثریت رہی ہے وہ بھی ان پارٹیوں میں کولیشن پارٹنر کی حیثیت سے شام رہی ہے ، 2013 کے بعد پاکستان میں تیسری بڑی پارٹی نے جنم لیا جو 2024 کے الیکشن میں پہلے نمبر پر رہی ہے وہ بھی بغیر نشان یا پارٹی جھنڈے کے کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کو ان کو نشان اور جھنڈے سے محروم کر دیا تھا لہذا اس کے تمام امیدواروں نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور 92 نشستیں حاصل کر لی آئین کے تحت آزاد امیدواروں نے کسی نہ کسی پارٹی میں شمولیت کرنا ہوتا ہے اس وجہ سے تحریک انصاف نے سنی تحریک سے نیا نکاح کر لیا۔
جب تک ان کا جھنڈا یا نشان واپس نہیں دیا جاتا اس وجہ سے سنی تحریک کی پارٹی خواتیں ، لیبر ، کسان ، اور اقلیتوں کے نشت سے محروم رہی کیونکہ سنی تحریک کے سربراہ نے خود بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا بلوچستان میں فارم 47 کے مطابق دو پارٹیوں نے اکثریت حاصل کر لی تھی باقی قوم پرسٹ پارٹیاں اس وقت اقلیت میں ہے جمعیت علماء اسلام نے اپوزیش میں رہنے کا پروگرام بنایا ہے ان کا موقف ہے چاروں صوبوں میں فارم 45 کے مطابق ہمارے کئی قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران منتخب ہو چکے ہیں۔
لیکن فارم 47 میں انہیں شکست سے دوچار کیا گیا ہے پاکستان میں 8 فروری کے الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ، ایم کیو ایم ، اور باپ پارٹی کا الائنس ہو چکا ہے اس الائنس میں کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر عمل کیا گیا ہے صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا وزیر اعلی اور گورنر پیپلزپارٹی کا ہو گا سندھ میں صوبائی حکومت پیپلزپارٹی کی اور گورنر ایم کیو ایم کا ہو گا بلوچستان میں وزیر اعلی پیپلزپارٹی سے اور 5 // 5 وزراء لئے جائیں گے کیونکہ 18 ویں ترمیم کے بعد صرف 15 فیصد وزراء اور 5 مشیر لئے جا سکتے ہیں بلوچستان میں تیسری بڑی پارٹی جمعیت علمائے اسلام ہے وہ حکومت میں شامل نہیں لہذا یہاں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اور باپ پارٹی کی کولیشن حکومت بن چکی ہے اس میں ہر پارٹی نے اپنے پارٹی کے صدر کے مشورت کے بعد وزارتوں کے لئے نام فائنل کئے ہیں۔
حلف اٹھانے کے بعد تمام وزراء کو محکمے بھی الاٹ ہو چکے ہیں لیکن ان پارٹیوں کے کچھ ایم پی ایز وزیر نہیں بن سکے انہوں نے کچھ مٹھائی دے کر سول میڈیا پر تعصب کا پتہ پھینکنے کی کوشش کی ہے یا کر رہے ہیں افسوس کی بات یہ ہے نہ ان سوشل میڈیا والوں کی کوئی تربیت ہے اور نہ ہی وہ کوالیفائیڈ صحافی ہے جس نے ان کے منہ میں بات ڈال دی وہ طوطے کی طرح اس پر رٹا لگا رہے ہیں ان کو نہیں معلوم اسی قومیت اور تعصب پرستی کی وجہ سے بلوچستان بہت نقصان اٹھا چکا ہے بقول ان کے کابینہ میں پشتونوں سے زیادہ بلوچ وزراء لئے گئے ہیں اور وزیر اعلی بلوچستان پر تنقید کر رہے ہیں حالانکہ ان کو یہ سوال ان کی پارٹیوں کے سربراہان سے کرنی چاہئے کہ آپ لوگوں نے قومیت کے نام پے وزارتیں تقسیم کیوں نہیں کی۔
دوسری بات یہ ہے پشتون بیلٹ سے زیادہ تر جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی کے ممبران کامیاب ہو کر آئیں ہیں اگر وہ حکومت میں شامل ہوتے تو آج صوبائی حکومت کی پوزیشن اور ہوتی ، بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے یہاں لوگ پارٹیوں سے کم اور ذاتی یا قبائلی حیثیت سے کامیاب ہو کر آتے ہیں پھر ان کا آپس میں مقابلہ ہوتا ہے کہ ریاست کا سب سے زیادہ وفادار اور تابعدار کون ہو گا پھر ان کے نام فائنل کیا جاتا ہے۔
اس میں پشتون اور بلوچ کی بات نہیں ہے آپ سب نے کئی دہائیوں سے دیکھا ہو گا اس میں کابینہ میں فرق صرف یہ ہے پرانے مال کو نئے نام سے پیک کر کے پیش کیا گیا ہے نہ ان وزراء سے پشتونوں کے حالات زندگی پر فرق پڑے گا اور نہ ہی بلوچوں کے یہ صرف اپنے اپنے مفادات کے لئے کام کرتے رہے گے میں گزشتہ روز سے دیکھ رہا ہوں اکثر پوسٹوں میں لکھا جا رہا ہے 2 پشتون وزیر لئے گئے ہیں میڈیم راحیلہ درانی صاحبہ اور نسیم الرحمن ملاخیل صاحب کو پشتونوں میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے حالانکہ میڈیم راحیلہ درانی پشتونوں کے سب سے رائل فیملی محمد زئی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔
نسیم الرحمن صاحب کا قبیلہ پورے پاکستان اور افغانستان میں مشہور ملاخیل پشتون قبیلہ ہے لہذا عوام سے میری دست بستہ گزارش ہے منفی سوچ کو پروان چڑھنے نہ دیں یہ کچھ لوگوں کا ایجنڈا ہے ھم سب کو اس بیماری کا حصہ نہیں بننا چاہئے ۔
اسکے علاوہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر پنجابی قوم سے تعلق رکھتے ہیں گزشتہ دو ماہ سے جتنی خدمت انہوں نے کوئٹہ شہر کی کی ہے گزشتہ ادوار میں 15 ایم پی ایز نہ کر سکے تھے اس سیلابیبارشوں کے دوران وہ رات دن اپنی ٹیم کے ہمراہ ہر جگہ پہنچے ہوتے ہیں اگر کسی نے کام کرنا ہوتا ہے تو اس کا رنگ نسل سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ اپنی اپنی اپنی صلاحیتوں کی بات ہے ھم بلوچستانیوں کے لئے وہ پشتون ، پنجابی، ہزارہ زیادہ قابل احترام ہے جو اس صوبے کی عوام کی زندگی میں تبدیلی لائے بنیادی سہولیات میں آسانی پیدا کرے۔
آخر میں ان تمام ایم پی صاحبان سے گزارش کرتا ہوں خدارا تعصب کا راگ الاپنا چھوڑ دیں بلکہ ڈھائی سال انتظار کریں اللہ سب خیر کرے گا ان کی باری بھی ضرور آئے گی کیونکہ ھم بلوچستانی عوام مزید تعصب پرستی کے متحمل نہیں ہو سکتے