روشنی کا سفر اور زندگی کے لیے کتاب کی افادیت

0

 

انسانی تاریخ میں کتاب ہمیشہ سے علم، آگہی، تہذیب اور تعمیر و ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ رہی ہے۔ کتاب، یہ صرف کاغذ کے چند صفحات پر لکھے ہوئے الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک ایسی روشنی ہے جو تاریکیوں کو چیرتی ہوئی انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر معرفت کے آفتاب و ماہتاب تک پہنچاتی ہے۔ کتابیں ہمارے ماضی کا احاطہ کرتی ہیں، حال کو سنوارتی ہیں اور مستقبل کی راہیں ہموار کرتی ہیں۔ آئیے عالمی یوم کتاب کی مناسبت سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کتاب کیوں ہماری زندگیوں کے لیے ناگزیر ہے اور ہمیں اس عظیم وسیلے کی قدر کیوں کرنی چاہیے۔

جس طرح جسم کی صحت کے لیے متوازن غذا ضروری ہے، عین اسی طرح ذہن کی پرورش اور شخصیت کی نشوونما کے لیے کتاب سے بہتر، اور کوئی کوئی ذریعہ نہیں۔ کتابیں ہمیں نئے خیالات، نئے امکانات، نئے نظریات اور نئے تجربات سے روشناس کراتی ہیں۔ وہ ہماری سوچ کو وسیع کرتی ہیں، ہماری شخصیت کو نکھارتی ہیں اور ہمیں ایک بہتر انسان بننے میں ضروری مدد دیتی ہیں۔ ایک اچھی کتاب پڑھ کر انسان خود کو بہتر طور تبدیل محسوس کرتا ہے، کیونکہ کتابیں ہمیں زندگی کے نئے زاویے دکھاتی ہیں۔ وہ ہمیں لائق و فائق لوگوں سے ملاتی ہیں اور ان کی برسوں بلکہ عشروں کی محنت اور ریاضت سے استفادہ کرنے کا موقع دیتی ہیں۔

کتابیں صرف معلومات ہی نہیں دیتیں، بلکہ وہ ہمیں تاریخ کے سبق بھی سکھاتی ہیں۔ ہمارا ایک خاص رجحان بھی بناتی ہیں اور ہمیں بے شمار حقائق کے بارے میں آگہی فراہم کرتی ہیں۔ کتاب کا ذریعہ اس قدر معتبر ہے کہ خود خدا نے بھی اپنے بندوں سے مخاطب ہونے کے لیے اسی کا سہارا لیا ہے۔ تورات، انجیل، زبور اور قرآن کریم سب کتابیں ہی تو ہیں۔ یہ ساری مقدس کتابیں ہو یا پھر سیرت، تاریخ اور احادیث سے متعلق مختلف معتبر کتب ہو یا تفاسیر، ابنِ خلدون کی مقدمہ یا البیرونی کی کتاب القانون اور الطب، حافظ شیرازی کی گلستان بوستان، مولانا روم کی حکایات رومی ہو یا مثنوی مولانا روم، شیکسپیئر کے ڈرامے ہو یا پھر علامہ محمد اقبال کی شاعری، مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی کتب بالخصوص انسانیت موت کے دروازے پر یا پھر مولانا مودودی رحمہ اللہ کی انقلاب آشنا کتابیں بالخصوص خلافت و ملوکیت، پردہ، تنقیحات، تفہیمات، اسلامی تہذیب اور اس اصول و مبادی وغیرہ یہ سب اور اس کے علاؤہ سائنس، قانون، تاریخ، اسفار یا سماجیات پر لکھی ہوئی لاکھوں بلکہ کروڑوں کتابیں ہمیں ماضی کے تجربات اور حقائق و واقعات سے آگاہ کرتی ہیں تاکہ ہم اپنے حال کو بہتر بنا سکیں۔ کتابیں قوموں کی عظمت اور زوال کی خاموشی سے داستانیں سناتی ہیں، تاکہ ہم ماضی کے تجربات سے آگہی پا کر حال میں اپنی راہ درست انداز میں متعین کر سکیں۔

ایک پڑھا لکھا معاشرہ ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ کتابیں معاشرے میں برداشت، رواداری، وسیع الظرفی، حقیقت پسندی اور تنقیدی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔ جہاں کتابوں کا احترام ہو، جہاں کتابوں کے لیے رغبت پائی جاتی ہو، جہاں کتابوں پر وقت اور توجہ صرف ہو وہاں جہالت، شقاوت، نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے امکانات کم سے کم ہو جاتے ہیں۔ کتابیں انسانوں کے درمیان محبت، مانوسیت، امن، احترام اور بھائی چارے کے جذبات کو پروان چڑھاتی ہیں۔

آج کے دور میں ٹیکنالوجی کی تیز ترین ترقی نے کتابوں سے لوگوں کو کافی حد تک دور کر دیا ہے۔ موبائل فونز، سوشل میڈیا اور ویڈیو گیمز نے نئی نسل کو کتابوں سے گویا بیزار کر دیا ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے، کیونکہ کتابوں کے بغیر ہماری نئی نسلیں گہرائی، سنجیدگی، لیاقت، بصیرت اور متانت سے عاری ہوتی جا رہی ہیں۔ مطالعہ صرف معلومات ہی نہیں دیتا، بلکہ یہ ہمیں بہتر انداز میں سوچنے سمجھنے، دیکھنے پرکھنے نیز امید اور اطمینان سے رہنے اور تخلیق و تعمیر کرنے کی صلاحیت بھی عطا کرتا ہے۔

کتاب سے محبت، کتاب کی رغبت اور کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس حوالے سے انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر خصوصی اقدامات کریں اور ایک ایسا ماحول بنانے پر توجہ مرکوز رکھیں جو کتاب دوست ہو۔ آئیے چند ایک بنیادی اقدامات کی نشان دہی کرتے ہیں جو کہ ایک کتاب دوست ماحول بنانے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں!

روزانہ مطالعہ کی عادت ڈالیں یعنی دن میں کم از کم 20 منٹ تو کتاب پڑھنے کے لیے بالکل مختص ہو۔

بچوں کو کتابوں سے روشناس کرائیں یعنی انہیں کہانیاں سنائیں اور اپنے ساتھ لائبریریوں میں لے کر جائیں۔ کبھی کبھی کتاب خرید کر بھی انہیں دیں۔

ڈیجیٹل کتابوں کا سہارا بھی لیں یعنی اگر کاغذی کتابیں دستیاب نہ ہو یا وہاں تک رسائی بوجوہ مشکل ہو تو ای بکس پڑھیں لیکن پڑھیں ضرور۔ پورا دن بلکہ ہفتہ یا مہینہ گزرے لیکن ہمارا ہاتھ کتاب تک نہ بڑھے تو یہ ٹھیک ٹھاک تشویشناک امر ہے۔

تحفوں کی صورت معاشرے میں کتابوں کو فروغ دیں، باہم کتابوں کا تبادلہ کریں، دوستوں کو اپنی من پسند کتابوں کی رغبت دلائے اور مختلف کتابوں پر تبصروں کی نشستیں منعقد کریں تاکہ گرد و پیش میں علم پھیلے۔

مصنفین کی متواتر حوصلہ افزائی کریں یعنی ان کی کتابیں خریدیں، ان سے رابطہ رکھیں، ان کو پروگرامات اور تقریبات میں مدعو کریں تاکہ تخلیق کاروں کی عزت افزائی ہو سکے۔

ہر سال 23 اپریل کو دنیا بھر میں "عالمی یوم کتاب اور حقِ مصنف” (World Book and Copyright Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن کتابوں کے فروغ، مصنفین کے حقوق کے تحفظ اور قارئین میں مطالعے کا ذوق و شوق بڑھانے کے لیے وقف ہے۔ عالمی سطح پر اس تاریخ کو منتخب کرنے کی ایک اہم وجہ شاید یہ بھی ہے کہ 23 اپریل کو ہی شیکسپیئر، سروینٹس اور انکا گارسیلاسو ڈی لا ویگا جیسے عظیم مصنفین کی وفات ہوئی تھی۔ یونیسکو نے 1995ء میں اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا باقاعدہ اعلان کیا تاکہ کتاب کی اہمیت کو کما حقہ اجاگر کیا جا سکے۔

کتاب انسان کا بہترین دوست ہے جس کی اطمینان بخش رفاقت ہمیشہ میسر رہتی ہے۔ کتاب ہمیں تنہائی میں ساتھ دیتی ہے، مشکل حالات میں رہنمائی کرتی ہے اور ہمارے باطن میں خوشی کی کیفیات پنپنے میں مدد دیتی ہے۔ عالمی یوم کتاب ہمیں یہ عہد کرنے کا موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں کتاب کو باقاعدہ شامل کریں، اس کو اہمیت دیں اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک ایسا ماحول بنا کر جائیں جہاں علم اور دانش کی روشنی دستیاب ہو۔ آئیے، کتاب کو اپنا رفیق بنائیں اور علم کی شمع سے دنیا کو منور کریں۔

"کتابیں وہ بہترین دوست ہیں جو ہمیں کبھی بھی تنہا اور مایوس نہیں چھوڑتیں۔”

Leave A Reply

Your email address will not be published.