پاکستان کی خطرناک راہداریاں
کالم تبدیلی
چوہدری عبدالعزیز پیٹربراء
اسلام میں بیٹھ کر جو مرضی وقت کے حکمران تقریریں کریں اور تالیاں بجا لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپریل 2022 کو جب سابق وزیراعظم عمران خان کی جمہوری حکومت کو امریکہ اور اسٹبلشمنٹ کی مدد سے ہٹایا گیا تو ملک ترقی کررہا تھا سیاسی اور معاشی استحکام تھا 18 ارب ڈالر فارن ریزرو کے ساتھ پاکستان کی شرح نمو 6 فیصد سے زائد تیزی سے بڑھ رہی تھی
ٹیکسٹائل، کنسٹرکشن اور آئی ٹی سمیت باقی تمام صنعتیں بھرپور منافع بخش کاروبار کررہی تھیں دس لاکھ روپے فی کس کے حساب سے مفت ہیلتھ کارڈز کا اجراء ہو چکا تھا غریبوں کے کھانے اور رہائش کے لئے ملک بھر میں پناہ گاہیں تعمیر ہو رہی تھیں کامیاب نوجوان پروگرام کے زریعے بے روزگار نوجوانوں کو قرضے اور نوکریاں مل رہی تھی
احساس پروگرام کے تحت معزروں بوڑھوں اور بے روزگاروں کو مالی مدد حاصل ہو رہی تھی بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری آ رہی تھی اورسیزز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل چکا تھا اور انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری شروع کردی تھی بجلی کی قیمت فی یونٹ 17 روپے تھی جو آج 60 سے 70 روپے تک پہنچ گئی ہے آلودگی سے بچائو اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کے لئے 10 بلین درخت لگائے جارہے تھے یاد رہے عمران خان کے دور میں دو سال کرونا کا زمانہ تھا
لیکن اس کے باوجود معیشت کا پہیہ چل رہا تھا پھر پچھلے ڈھائی سالوں سے پی ڈی ایم ون اور پی ڈی ایم ٹو بشمول اسٹبلیشمنٹ کی حکومت میں پاکستان کو بے شمار چیلنجز اور مسائل درپیش ہو چکے ہیں جن میں مُسلسل اضافہ اور پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں جو بعض خود ساختی مسائل، بیرونی دباؤ، اور حالیہ عالمی واقعات کی وجہ سے مزید شدت اختیار کر گئے ہیں
پاکستان میں مہنگائی کی شرح خاص طور پر خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے صارفین کی خریداری کی قوت کم ہو گی ہے، زندگی گزارنے کی لاگت بڑھ گئی ہے معاشی حالات میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
حکومت کو مسلسل مالی خسارے کا سامنا ہے جو آمدنی سے زیادہ خرچ کر رہی ہے۔ اس سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر قرضے لینے کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے جس سے قومی قرضوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔
جبکہ پاکستان کے بیرونی قرضے پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ ہیں جس کا بڑا حصہ قرض کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔
جس سے حکومت کی صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کی صلاحیت محدود ہو گئی ہے
پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہو رہا ہے جو درآمدات میں اضافے، برآمدات میں کمی، اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کی کمی جیسے عوامل سے متاثر ہوا ہے کمزور روپیہ درآمدات کی قیمت میں اضافہ کر رہا ہے اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہورہا ہے
مسلسل توانائی کی کمی اور توانائی کے شعبے میں نااہلیوں نے صنعتی ترقی اور پیداواری صلاحیت کو نقصان بہت پہنچایا ہے۔ مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار اور توانائی کے شعبے میں تاخیر سے ادائیگیوں نے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ
ٹیکس بیس کم ہورہا ہے، اور معیشت کا ایک بڑا حصہ غیر رسمی شعبے میں کام کر رہا ہے۔
اس سے حکومتی آمدنی محدود ہوتی ہے اور حکومت کو بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے، جس سے غریبوں پر زیادہ بوجھ ڈالا جارہا ہے
پاکستان مسلسل تجارتی خسارے کا شکار ہورہا ہے، کیونکہ اس کی درآمدات اس کی برآمدات سے زیادہ ہیں۔ برآمدات میں تنوع کی کمی، چند مخصوص شعبوں جیسے ٹیکسٹائل پر انحصار، اور مناسب ویلیو ایڈیشن کی کمی نے اس عدم توازن کو مزید بگاڑ دیا ہے۔
سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے اور متضاد اقتصادی پالیسیاں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو مزید روک رہی ہیں۔
تیز رفتار آبادی میں اضافہ بھی وسائل اور بنیادی ڈھانچے پر دباؤ ڈالتا ہے، جس کے لیے تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور روزگار کے مواقع میں نمایاں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جو موجودہ معیشت اور پالیسوں میں فراہم کرنے میں ناکام ہے۔
پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے، اور اسے سیلاب، خشک سالی، اور دیگر قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ یہ واقعات زراعت کو متاثر کرتے ہیں، آبادی کو بے گھر کرتے ہیں، اور پہلے سے ہی جدوجہد کرنے والی معیشت پر مزید دباؤ ڈالتے ہیں ۔ مالی مدد کے لیے پاکستان کا آئی ایم ایف پروگراموں پر انحصار سخت شرائط کے ساتھ ہوا ہے جن میں کفایت شعاری کے اقدامات شامل ہیں جو معاشی ترقی کو سست کر رہے ہیں اور عوامی عدم اطمینان میں اضافہ کر رہے ہیں
ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مالیاتی پالیسی، توانائی کے انتظام، ٹیکسوں، اور طرز حکمرانی میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو برآمدات بڑھانے، کاروباری ماحول کو بہتر بنانے، اور معاشی جھٹکوں سے بچانے کے لیے سماجی تحفظ کے نیٹ ورک کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیےلیکن موجودہ حکومت کی ساری توانائیاں صرف ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پر کریک ڈاؤن ہے۔ جبکہ موجودہ حکومت کو کسی طور پر بھی عوامی تائید اور حمایت حاصل نہیں ہے
چونکہ رواں سال 8 فروری کے عام انتخابات میں عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت سے انتخابات جیت گی تھی لیکن نتائج کو روک کر اتحادیوں کی ایک جعلی حکومت کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا جس پر عوام اعتماد نہیں کرتی جبکہ عمران خان کے خلاف 200 سے زائد کیس بنائے گئے
جس سے عدالتوں نے بری کردیا ہے لیکن اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے مزے اڑانے والی پارٹیاں ہر صورت عمران خان کو جیل میں رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں جس سے ملک میں افراتفری ہے تازہ ترین ڈویلپمنٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی گرفتاری ہے
جن کو عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے اور عمران خان کو فوجی تحویل میں لینے کے لئے کوششیں ہورہی ہیں اور کوشش یہ ہے کہ عمران خان کا کوئی پیغام اور کوئی رسائی عوام تک نہ ہو – 250 ملین عوام کے ملک کا نقصان اس طرح ہورہا ہے کہ ملک چل رہا ہے نہ عوام قابو میں ہے عاقبت نا اندیش یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ بادشاہی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ہے ادہر برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں پاکستانی عمران خان کی رہائی کے لئے پہلے سے زیادہ متحرک اور فعال نظر آرہے ہیں
پاکستان میں بھی عوام پرامن احتجاج پر نکل چکی ہے ان شاء ملک کی وحدت کو بچانے کے لئے ہم سب کردار ادا کریں گے عوام کی طاقت سے عمران کو رہا کروائیں گے