کالمز

یہ دیس جگمگائے گا نور لاالہ سے ۔۔۔۔۔۔

تحریر ۔۔ نازمین عامر

یہ 13 اگست کی رات تھی۔بارہ بننے میں تھوڑا ہی وقت تھا جب آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ایک اعلان کے لیے ہندوستان کے مسلمان سانس روکے ریڈیو سے کان لگائے بیٹھے تھے ۔جیسے ہی بارہ پر گھڑی کی سوئیاں ٹہری ۔آل انڈیا ریڈیو سے اعلان ہوا کہ یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے آپ کو پاکستان مبارک ہو ۔

یہ 1947 کی وہ ساعتیں تھیں جو وطن عزیز کی تاریخ میں امر ہوگئی اور آج بھی تیرہ اگست کو جب گھڑی کی سوئیاں بارہ بجنے کا اعلان کرتی ہے تو پورا ملک پٹاخوں اور پاکستان ژندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے ۔
اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرانے لگتے ہیں ،بچے اور جوان گھروں کے درودیوار پر جھنڈے اور جھنڈیاں آویزاں کرنے لگتے ہیں ۔چودہ اگست کے دن تو خوشی اور مسرت کے شادیانے بجنے لگتے ہیں

اور خوشی کیوں نہ ہو چودہ اگست تو وہ دن ہے جب ہم اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں جب ہمارا پیارا وطن پاکستان لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیکر آزاد ہوا۔جس کے لیے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور خوشی خوشی اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر وطن کی محبت میں مہاجر کیمپوں میں منتقل ہوگئے ۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے دوقومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقدمہ اس انداز سے لڑا کہ ہندوستان کے مسلمان ان کی قیادت میں قدم بقدم راستے کی تمام مشکلات اور خطرات کو عبور کر گئے ۔
اور ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود انگریز ہندوستان کو تقسیم کرنے پر مجبور ہوا۔

پاکستان کی کہانی تو اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوتا ہے۔اور ہندوستان میں اسلامی تہذیب وتمدن کی بنیاد ڈالی جاتی ہے ۔

پھر یہ تہذیب اپنے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اپنے بام عروج پر پہنچ جاتی ہے ۔

اور جب اس تہذیب کے رکھوالے اپنی شناخت سے غافل ہوکر غیروں کی مشابہت اپنانے لگتے ہیں تو پھر ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر پاک و ہند میں اسلامی تہذیب کے بجھتے دئیے بہادر شاہ ظفر کو دلی کے عالی شان محل سے اٹھاکر رنگون کے زنداں میں ڈال دیتی ہے ۔اور باقی شہزادوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔

اور اسلامی تہذیب وتمدن کی جگہ انگریزی زبان ،تہذیب وتمدن کا طوطی بولنے لگتا ہے۔

کتنے ہی سال مسلمان انگریز کی غلامی میں زندگی گزارتے رہےہیں ۔مگر اسلام کب مغلوب ہونے کے لیے آیا ہے یہ تو ہر صورت غالب ہو کر رہے گا۔انشاءاللہ

علامہ محمد اقبال نے جب ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے ایک الگ وطن کا خواب پیش کیا تو محمد علی جناح نے اس خواب کو تعبیر پہنانے کے لیے اپنی وکالت چھوڑ ی اور مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن حاصل کرنے کا مقدمہ انگریز حکومت کے سامنے پیش کیا ۔یہ مقدمہ کیا تھا . یہ دو قومی نظریہ تھا ۔یہ مسلمانوں کی الگ تہذیب وتمدن ،مذہب،زبان کی بنیاد پر الگ وطن کا مقدمہ تھا جو دو قومی نظریہ کہلایا۔

دو قومی نظریے نے ہندوستانی مسلمانوں میں ایسی قوت ڈال دی جس کے بل بوتے پر انھوں نے اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن اور حریف نہ صرف ہندوؤں بلکہ انگریزسرکار کو بھی گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور ان سے ہندوستان تقسیم کراکر اپنے لیے الگ ملک بنایا ۔

اور دنیا کے نقشے پر ایک انوکھی ریاست قائم کی ۔جو کلمے کی بنیاد پر حاصل ہوئی جس کی مٹی میں کلمے کی روح گوندھی گئی۔جس کی فضاؤں میں اذانوں کی چاشنی ہیں۔ جس کی مٹی میں سجدوں کے نشاں جابجا ملتے ہیں ۔

سالوں بعد آج بھی دو قومی نظریہ اس ملک خداداد کی روح ہے اگر جسم روح کے بغیر بے جان ہے تو یہ وطن اس نظریے کے بغیر زندگی نہیں پاسکتا ۔

دوقومی نظریہ پاکستان کی شناخت ہے کہ
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

دوقومی نظریہ کیا ہے ؟
رب واحد کی بندگی اور باقی

بندگیوں سے انکار ۔۔۔۔

حقیقت میں یہ نظریہ نہ صرف پاکستان کی روح ہے بلکہ پیارے وطن کی ترقی اور خوشحالی بھی اسی نظریے سے جڑی ہے کہ اس کے باشندے مختلف قومیتوں سے وابستہ ہونے کے باوجود

اور علاقائی تنوع رکھنے کے باوجود پاکستانی کہلانے پر فخر کرتے ہیں ۔یہی وہ نظریہ ہے جو ہمیں جو ہمیں جوڑ کر رکھتی ہیں اور

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

کے مثل جب کوئی آزمائش آتی ہے تو پوری قوم ایک ہو جاتی ہے۔
مگر بدقسمتی تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں ایک طبقہ ،جو ہے تو آٹے میں نمک کے برابر ،مگر اس ملک کی شناخت کے درپے ہے جو اس سے وہ قوت چھیننا چاہتے ہیں جو دراصل اس کا ذریعہ وجود ہے۔جو اگر اس کے باسیوں کے دلوں میں جاگزیں نہ رہے تو اس کے وجود کو قائم رکھنا ممکن نہ رہے گا۔

آج اگر پاکستان مشکل حالات میں ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ نظریہ اس کے رہنے والوں کے دلوں میں کمزور پڑ گیا ۔ہم مستقل اس کے روح جاں سے بے وفائی ،بے اعتنائی بلکہ غداری کے مرتکب ہوئے جارہے ہیں۔مگر سوال تو یہ ہے کہ ہم میں سے وہ کون ہیں جو یہ کررہاہے ؟

ہم سب ہی تو کسی نہ کسی
لحاظ سے اس کے مجرم ہیں ۔

افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

اس دیس کی ہواؤں میں شہیدوں کے خون کی پوشیدہ خوشبو آج بھی کہ رہی ہیں ۔کہ ہم اس کشتی کو طوفانوں سے نکال کر لائے ہیں اب اس کو سنبھال کر رکھنا۔

آج جبکہ 14اگست قریب آرہا ہے ہم اس آزادی کے مقروض ہے۔اس آزادی کا قرض یہ ہے ۔کہ ہم اس نظریے کی آبیاری کرتے رہیں جو ہمارے پیارے وطن کی روح رواں ہے۔جو اس کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے ۔جو اس کے باسیوں کے دلوں میں زندہ ہو

تو اس کی فضائیں امن و سلامتی سے بھرجائے۔لیکن ایک اور حقیقت ہمیں دعوت دے رہی ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو وطن عزیز کی حکومت کے ایوانوں میں بھیجیں جو دو قومی نظریے کی پاسبانی اور پاسداری کرنے والے ہو۔۔۔

کہ یہ دیس جگمگائے گا نور الہ سے ۔۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button