sui northern 1

موسمیاتی تبدیلی:”اس ساری بدنظمی کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں”

عابد رشید

0
Social Wallet protection 2

اسلام آباد کی خنک صبح کی ہوا جب چہرے سے ٹکراتی ہےتو ہر سانس کے ساتھ فطرت ہمیں اپنے راز سناتی ہے۔۔۔۔مگر ہم سنتے کہاں ہیں؟۔۔۔ ہم نے تو عقل وشعور کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں عرصے سے بند کر رکھی ہیں۔۔۔
شمال کے پہاڑوں میں برف کی چٹانیں جیسے خاموش آنسو بہا رہی ہیں،
پنجاب کی زمینوں کے سینوں پر نجی ہاؤسنگ سوسائٹیاں مونگ دل رہی ہیں۔۔۔سندھ کی زمین درختوں کی کمی کی صدا دے رہی ہیں اور بلوچستان کے صحراؤں میں دھوپ کا بوجھ انسان کے کندھوں پر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔۔۔۔ لیکن ہم تماشا دیکھ رہے ہیں اور واہ واہ کر رہے ہیں۔۔۔
یہ قدرتی مظاہر نہیں رہے۔۔۔ انسانی رویوں کے عکاس ہیں۔
ہم نے قدرت کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا۔۔۔۔درخت کاٹے۔۔۔ندی نالوں کو زہریلا بنایا۔۔۔پانی اور وسائل کو ضائع کیا۔۔ آج زمین اپنی ٹھوکر سے ہمیں جگا رہی ہے۔
گزشتہ روز پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(ایس ڈی پی آئی) میں لیکچر کے دوران ڈاکٹر عادل نجم نے بالکل درست کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اب صرف سائنسی مسئلہ نہیں رہی۔ یہ انسانی اخلاق، سماجی اقدار اور ایمان سے جڑا ایک ہمہ گیر بحران ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں۔۔۔۔جہاں وسائل محدود ہیں اور سماجی شعور مختلف تہوں میں بٹا ہوا ہے۔۔۔ یہ بحران ایک ایسا آئینہ ہے جو ہماری اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی عکاسی کرتا ہے۔
ہم نے ترقی کے نام پر فطرت سے جنگ شروع کی مگر بھول گئے بھلا قدرت سے کوئی کب جیت سکا ہے؟
تکنیکی حل اور انتظامی اقدامات اپنی حد تک مؤثر ہیں مگر یہ کافی نہیں۔ ڈاکٹر نجم نے جس فکری سختی کے ساتھ زور دیا وہ یہ ہے کہ موسمیاتی لچک کے لئے ایمان، اخلاقیات اور اقدار کو سائنس کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ کوئی مشورہ نہیں، بلکہ عملی حقیقت ہے۔ مذہب ہمیں اصراف کی اجازت نہیں دیتا ۔۔۔ ہم خدا کو تو مانتے ہیں مگر خدا کی نہیں مانتے
مجھے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کی ایک رپورٹ یاد آگئی جس کے محققین نے لکھا کہ خواتین بارش کے پانی کو چھوٹے چھوٹے ٹیلوں اور ٹینک میں جمع کر رہی تھیں جبکہ شہروں میں لوگ نل کھلا چھوڑ کر پانی ضائع کر دیتے ہیں۔ یہی فرق بتاتا ہے کہ موسمیاتی بحران کا حل صرف قانون یا ٹیکنالوجی میں نہیں بلکہ رویوں کی تبدیلی میں مضمر ہےاور یہ تبدیلی ایمان اور اخلاقیات کے ذریعے ممکن ہے۔
ڈاکٹر نجم نے وضو کی مثال دے کر بتایا کہ ایمان پر مبنی رویوں میں تبدیلی کس قدر طاقتور ہو سکتی ہے۔ ایک عام وضو میں 3.5 سے 10 لیٹر پانی ضائع ہوتا ہے، جبکہ حضور نبی کریم ﷺ صرف 0.66 لیٹر پانی سے وضو فرماتے تھے۔ اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہی اعتدال اپنائیں تو نہ صرف پانی کی بچت ہوگی بلکہ قدرتی وسائل کی حفاظت کا درس بھی ملے گا۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں جہاں پانی کے ذرائع محدود ہیں،یہ اصول عملی ضرورت کے طور پر سامنے آتا ہے۔
یہاں ایک اور حقیقت مدنظر رکھنی ہوگی: موسمیاتی اقدامات کو صرف اقتصادی فوائد کے زاویے سے دیکھنا ناکام ثابت ہوا ہے۔ لیکن جب ہم انسانی اقدار، اخلاقیات اور ایمان کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو اثر کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ یہی سبق ہمیں پاکستانی دیہی معاشروں میں ملتا ہے، جہاں زمین اور پانی کی حفاظت مذہبی تعلیمات اور مقامی روایات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ہم نے ان تعلیمات کو نظرانداز کر کے مغربی ماڈلز کی نقل کی کوشش کی، اور نتیجہ یہ نکلا کہ پالیسی اور حقیقت کے درمیان خلا بڑھ گیا۔
ڈاکٹر نجم نے اسلامی تعلیمات سے ماخوذ سات بنیادی اصول بیان کئے جو موسمیاتی مطابقت کے لئے رہنما ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ اصول قدرتی وسائل کا بہتر استعمال، فضلے میں کمی، ماحولیاتی انصاف، اور ادارہ جاتی اصلاحات کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ پاکستان میں ان اصولوں کو اپنانا آج پہلے سے زیادہ ضروری ہے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی نے یہاں کے کسان، مچھلی پال اور شہریوں کی زندگی پر براہ راست اثر ڈالا ہے۔
پاکستان کی سیاسی صورتِ حال بھی اس بحران میں رکاوٹ ہے۔ حکومتی کمزوریاں، ادارہ جاتی تقسیم اور سیاسی مفادات اکثر ماحول دوست اقدامات میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ مگر ایمان اور اخلاقیات کو فکری اور عملی آلہ بنا کر ہم نہ صرف رویوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ پالیسی سازوں پر بھی دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ ماحول دوست اقدامات میں تیزی لائیں۔ یہ سخت سیاسی اور فکری ضرورت ہے،کیونکہ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہمیں بار بار یاد دلا رہا ہے کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
سوال و جواب کے سیشن میں ڈاکٹر نجم نے نوجوان نسل کی بڑھتی دلچسپی کی جانب اشارہ کیاجو اقدار پر مبنی موسمیاتی سرگرمیوں میں بڑھ چکی ہے۔ یہ ایک امید کی کرن ہے،کیونکہ پاکستان میں نوجوان آبادی زیادہ ہے، اور اگر انہیں تعلیم، شعور اور عملی مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ نہ صرف معاشرتی تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ قومی سطح پر بھی موسمیاتی لچک میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
آخر میں، یہ بات واضح ہے کہ ایمان اور اخلاقیات پر مبنی حکمت عملی ریاستی پالیسی یا بین الاقوامی معاہدوں کا متبادل نہیں، لیکن یہ رویوں میں مثبت تبدیلی کا ایک مؤثر اور کم استعمال شدہ ذریعہ ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں سیاسی اور اقتصادی بحران مسلسل ماحولیات کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں، مقامی سطح پر کمیونٹیز اور افراد کے ساتھ کام کرنا ناگزیر ہے۔ مذہب دنیا بھر میں ایک طاقتور سماجی حقیقت ہےاور اگر اس طاقت کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے بروئے کار لایا جائے تو یہ نہ صرف عملی نتائج دے سکتا ہے بلکہ انسانی شعور میں بھی تبدیلی لا سکتا ہے۔
یہ لمحہ صرف سائنسی رپورٹوں یا اقتصادی اعداد و شمار کا نہیں رہا۔۔۔یہ ایک اخلاقی اور سیاسی امتحان ہے۔ ہمیں سائنس، ایمان اور اخلاقیات کو ایک ساتھ ملا کر عمل کرنا ہوگا،ورنہ یہ بحران صدیوں کی تاریخ میں ایک تلخ باب کے طور پر باقی رہے گا۔ پاکستان کے پہاڑ، دریا اور صحراؤں کی خاموش فریاد ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے: "اب وقت عمل کا ہےاور عمل ایمان کی روشنی سے روشن ہوگا۔”

sui northern 2
Leave A Reply

Your email address will not be published.