لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب پراپرٹی اونر شپ آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے آرڈیننس پر عملدرآمد روک دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے عابدہ پروین سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی، عدالت نے تمام درخواستوں پر اعتراضات دور کر کے فل بنچ بنانے کی سفارش کردی، عدالت نے پراپرٹی اونر شپ آرڈیننس کے تحت دیئے گئے قبضوں کو بھی واپس کردیا۔
عدالتی حکم پر چیف سیکرٹری پنجاب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ حکومت کو بتائیے اگر کسی نے جاتی امرا کے خلاف درخواست دی پھر تو ڈی سی اس کے حق میں بھی فیصلہ کرسکتا ہے۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل کیوں نہیں آئے، وکیل نے بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بیمار ہیں اس لیے نہیں آئے، جس پر چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ میں بھی بیمار ہوں مجھے بیڈ ریسٹ کہا گیا ہے مگر یہاں بیٹھی ہوں۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے سماعت کے دوران کہا کہ لگتا ہے چیف سیکرٹری نے یہ قانون نہیں پڑھا؟ لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ انہیں تمام اختیارات دے دیئے جائیں، یہ قانون بنا کیوں ہے ؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ معاملہ سول کورٹ میں زیر سماعت ہو تو ریونیو آفیسر کیسے قبضہ دلا سکتا ہے ؟
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے مزید کہا کہ آپ نے سول سیٹ اپ، سول رائٹس کو ختم کردیا آپ نے عدالتی سپرمیسی کو ختم کردیا ہے، آپ کا بس چلتا تو آئین کو بھی معطل کر دیتے، اگر ڈی سی آپ کے گھر کا قبضہ کسی اور کو دے دیں تو آپ کے پاس اپیل کا کوئی حق نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ آپ کا قانون یہ کہتا ہے کہ ہائیکورٹ معاملے پر اسٹے بھی نہیں کرسکتا، موبائل پر آپ فون کرتے ہیں اور کہتے آجاؤ ورنہ تمہارا قبضہ چلا گیا، آپ یہاں کھڑے ہیں اور آپ کا گھر جا رہا ہو گا؟
عدالت نے استفسار کیا کہ قانون کے مطابق جس نے شکایت کردی وہی درخواست گزار ہو گا، کیا یہاں جعلی رجسٹریاں ،جعلی دستاویزات نہیں بنتی ہیں؟
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے قرار دیا کہ اگر آپ کا پٹواری جعلی دستاویزات نہ بنائے تو سول عدالتوں میں اتنے کیسز دائر ہی نا ہوں، قانون کے تحت آپ نے ڈیسپیوٹ ریزولیوشن کمیٹی بنائی ہے، آپ کی کمیٹی کو لوگوں کو ڈراتی دھمکاتی ہے، آپ کے کمیٹی ممبران لوگوں کو کہتے ہیں کہ قبضہ نہ دیا تو باہر پولیس کا ڈالا کھڑا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ کمیٹی ممبران کہتے ہیں کہ دس دس سال قید سزا دیں گے، آپ نے ہمارے سول جج کو دیکھا ہے؟ کیسے خاموشی سے بیٹھا ہوتا ہے، قاضی کا فرض خاموشی سے اپنا کام کرنا ہوتا ہے، عدالت دل سے نہیں بلکہ دماغ سے فیصلے سے کرتی ہے، آپ کے ڈی سیز خواہشات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے چیف سیکرٹری سے پوچھا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ تمام اختیارات آپ کو دے دیے جائیں، کیا آپ اس قانون کا دفاع کر رہے ہیں؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ ڈی سیز کو قبضے کا اختیار نہیں دیا گیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سینکڑوں کیسز ہیں جہاں ڈی سیز نے قبضے دیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس قانون کے تحت میں یہاں بیٹھی ہوں کوئی درخواست دے اور میرے گھر کا قبضہ بھی ہوجائے گا، جن پٹواریوں کو اپ نے اختیارات دیے، یہی کل کو قبضہ گروپس کے ساتھ مل جائیں گے۔