sui northern 1

پنجاب کا بلدیاتی نظام… آئینی تحفظ کے بغیر کب تک؟

تحریر: آصف اقبال

0
Social Wallet protection 2

پنجاب اسمبلی میں حال ہی میں منظور ہونے والی قرارداد نے ایک بار پھر اس بنیادی سوال کو زندہ کر دیا ہے کہ آخر پنجاب کا بلدیاتی نظام مضبوط کیوں نہیں ہو سکا؟ عوام کے روزمرہ مسائل صوبائی دارالحکومت کے دفاتر میں کیوں الجھے رہتے ہیں، اور وہ نمائندے جنہیں گلی محلوں کے مسائل حل کرنے تھے، آخر وہ کس اختیار سے محروم ہیں کہ ہر چند سال بعد یہ نظام ایک شکست خوردہ صورت میں سامنے آ کھڑا ہوتا ہے؟
یہ سوالات نئے نہیں، مگر موجودہ سیاسی اور انتظامی حالات نے انہیں پہلے سے کہیں زیادہ سنگین بنا دیا ہے۔ پنجاب کا موجودہ بلدیاتی ڈھانچہ نہ صرف کمزور اور محدود ہے بلکہ اپنی آئینی حیثیت کے حوالے سے بھی شدید غیر یقینی کا شکار ہے۔

sui northern 2

بلدیاتی نظام کی سب سے بڑی کمزوری اس کا آئینی تحفظ نہ ہونا ہے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 140-A کے باوجود مقامی حکومتوں کا ڈھانچہ ابہام اور عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں پنجاب میں بلدیاتی نظام چھ مرتبہ تبدیل کیا جا چکا ہے۔ جس نظام کو مضبوط ہونے کے لیے کم از کم دس سال درکار تھے، اسے دو سال کی بھی مہلت نہ مل سکی۔ یہ عدم تسلسل نہ صرف عملدرآمد میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ مقامی نمائندوں کے کردار کو بھی غیر مؤثر بنا دیتا ہے۔
مالی خودمختاری نظام کی ریڑھ کی ہڈی، مگر ہمیشہ کمزور ہی رہا کیونکہ
پنجاب کے بلدیاتی ادارے عملی طور پر مالی خودمختاری سے محروم ہیں۔ ان کے پاس نہ اپنے وسائل ہیں اور نہ ہی صوبائی حکومت سے ملنے والے فنڈز بروقت اور مکمل دستیاب ہوتے ہیں۔
سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان بارہا اس نکتے کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ جس علاقے کے فنڈز ہوں، اگر وہیں خرچ ہوں تو نہ عوام کو شکایت رہتی ہے اور نہ ترقیاتی عمل رُکتا ہے۔

مگر عملی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یونین کونسل سے لے کر میٹروپولیٹن کارپوریشن تک ہر ادارہ صوبائی حکومت کے رحم و کرم پر ہے۔ جب فنڈز سیاسی ترجیحات سے مشروط ہوں تو ترقیاتی منصوبے فائلوں میں دب کر رہ جاتے ہیں اور بجٹ کا بڑا حصہ صرف انتظامی اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے۔
پنجاب میں مقامی حکومتوں کو کبھی مکمل اختیارات منتقل نہیں کیے گئے۔ شہر کی صفائی ایک ادارے کے پاس ہے، پانی کی فراہمی کسی اور کے اختیار میں، جبکہ ٹریفک، ماسٹر پلاننگ اور سول ڈیفنس مختلف محکموں کے ماتحت ہیں۔
اس بکھرے ہوئے نظام میں منتخب نمائندے فیصلہ سازی کے بجائے محض سفارش تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں، جبکہ بیوروکریسی عملاً زیادہ طاقتور نظر آتی ہے اور عوام کی منتخب قیادت حاشیے پر چلی جاتی ہے۔
پنجاب میں ہر دورِ حکومت نے بلدیاتی حلقہ بندیوں کو اپنے سیاسی مفاد کے مطابق تشکیل دیا۔ کہیں کم آبادی کو کئی یونین کونسلیں دے دی گئیں اور کہیں لاکھوں افراد ایک ہی کونسل تک محدود کر دیے گئے۔ نمائندگی کا یہ عدم توازن پورے نظام کو مزید کمزور کرتا ہے اور عوامی خدمت کا اصل مقصد پس منظر میں چلا جاتا ہے اور تسلسل کا فقدان ہے کے نظام نے کبھی چلنا سیکھا ہی نہیں
پنجاب میں کسی بھی بلدیاتی نظام کو نہ مدت پوری کرنے دی گئی اور نہ استحکام نصیب ہوا۔ کبھی تحلیل، کبھی نیا قانون، پھر نئے انتخابات اور اس کے بعد دوبارہ تحلیل۔ ایسا غیر یقینی ماحول کسی بھی نظام کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتا ہے۔
28ویں آئینی ترمیم نئی امید یا نئی بحث؟

پنجاب اسمبلی کی حالیہ قرارداد میں پہلی بار مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کا واضح مطالبہ سامنے آیا ہے۔ یہ محض ایک رسمی قرارداد نہیں بلکہ ایک نئی سوچ اور سیاسی شعور کی عکاس ہے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی نے اپنی تقریر میں بجا طور پر کہا کہ:
پاکستان کے عوام اب بہتر طرزِ حکمرانی کے ساتھ ساتھ اصل اختیار کی تقسیم چاہتے ہیں۔
اگر مجوزہ 28ویں آئینی ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مقامی حکومتیں مالی اور انتظامی طور پر حقیقی معنوں میں بااختیار ہو سکیں گی۔
گلی محلے کے مسائل صوبائی سیکرٹریٹ حل نہیں کر سکتا
صاف پانی، سیوریج، نالوں کی صفائی، پارکوں کی بحالی اور اسٹریٹ لائٹس جیسے مسائل وہ ہیں جنہیں نہ لاہور میں بیٹھا کوئی بیوروکریٹ حل کر سکتا ہے اور نہ ہی صوبائی سیکرٹریٹ میں تیار کی جانے والی پالیسی۔ ان مسائل کا حل صرف وہی نمائندے دے سکتے ہیں جو انہی گلیوں اور محلوں میں رہتے ہوں اور زمینی حقائق سے براہِ راست واقف ہوں۔
اصل سوال یہی ہے:
کیا صوبائی حکومتیں اپنے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے پر آمادہ ہیں؟
کیا بیوروکریسی اپنے کنٹرول کا ایک حصہ منتخب مقامی نمائندوں کو دینے کے لیے تیار ہوگی؟
اور کیا مستقبل کی حکومتیں اس آئینی بندوبست کو چھیڑنے سے گریز کریں گی؟
یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ حالیہ برسوں میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے مختلف شعبوں میں تیز رفتاری، نیت اور وژن کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات عوامی فلاح کے لیے اہم ہیں، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا بلدیاتی نظام کے بغیر یہ اقدامات طویل مدت تک مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں؟
بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی کا سب سے بڑا نقصان عوامی شمولیت میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جب گلی، محلے اور یونین کونسل کی سطح پر براہِ راست نمائندگی ختم ہو جائے تو فیصلے زمینی حقائق سے کٹ جاتے ہیں۔ اسی خلا کے باعث صاف پانی، سیوریج، کچرا، ٹوٹی سڑکیں اور خراب اسٹریٹ لائٹس جیسے مسائل برسوں حل طلب رہتے ہیں اور شہری کی آواز فائلوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتی ہے۔
حقیقت بالکل واضح ہے: پاکستان کی مضبوطی مقامی حکومتوں سے جڑی ہے۔ اگر ملک نے سیاسی استحکام، مؤثر طرزِ حکمرانی اور معاشی بہتری کی جانب بڑھنا ہے تو راستہ مضبوط بلدیاتی نظام سے ہو کر گزرتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی قرارداد سمت متعین کر چکی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سمت آئینی شکل اختیار کرتی ہے۔
یا ایک بار پھر ہم وہیں کھڑے رہیں گے جہاں ہر بار سفر شروع ہوتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.