پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے غیر ضروری یا نامکمل استعمال نے عوامی صحت کے لیے سنگین خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق ملک میں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (AMR) کی وجہ سے ہر سال تقریباً 2 سے 3 لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ٹک ٹاک کا نیا معاہدہ، امریکی مارکیٹ میں آپریشنز کی راہ ہموار
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان 204 ممالک میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کے لحاظ سے 29 ویں نمبر پر ہے۔ آئی سی یوز میں ایسے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کے انفیکشن ملٹی ڈرگ-مزاحم جراثیم کی وجہ سے ہیں، جو علاج کو مشکل بنا رہے ہیں۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ماہر ڈاکٹر سعید خان نے بتایا کہ اگر اس رجحان پر قابو نہ پایا گیا تو 2050 تک دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی وجہ سے سالانہ ایک کروڑ اموات ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں یہ مسئلہ بغیر نسخے دوائیں لینے، ادویات کا نامکمل استعمال، ہسپتالوں میں ناقص انفیکشن کنٹرول اور لائیوسٹاک میں اینٹی بائیوٹک کے زیادہ استعمال کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
ملٹی ڈرگ-مزاحم انفیکشنز اب پاکستان کے بڑے ہسپتالوں کے آئی سی یوز، نیو نیٹل اور سرجیکل وارڈز میں بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 40 سے 70 فیصد آئی سی یو مریض ایسے انفیکشنز کا شکار ہیں، جس سے علاج پیچیدہ ہو گیا ہے۔ ڈاکٹرز نے خبردار کیا ہے کہ اگر احتیاطی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ جراثیم جلد ہی موت کی بڑی وجہ بن سکتے ہیں۔