آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو پوری ریاست کی نمائندہ حکومت تسلیم کیا جانا چاہیے, ڈاکٹر محمد مشتاق خان

0

مظفرآباد: امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر و گلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے ایوانِ صحافت مظفرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد اب آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو پوری ریاست کی نمائندہ حکومت تسلیم کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں مقیم مہاجرین کی نشستوں کا تعین آزاد کشمیر کے حلقہ جات کے ووٹرز کی تعداد کے مطابق کیا جائے۔ اس کے علاوہ حریت کانفرنس، متحدہ جہاد کونسل اور 1989 کے بعد ہجرت کرنے والے مہاجرین کے لیے آزاد کشمیر اسمبلی میں دو نشستیں مختص کی جائیں جن کا انتخاب بالواسطہ طور پر اسمبلی کرے۔

ڈاکٹر مشتاق خان نے کہا کہ کابینہ کے وزراء، مشیروں اور اراکین کی تعداد کو مجموعی ایوان کی تعداد کے 20 فیصد تک محدود کیا جائے۔ انہوں نے آزاد کشمیر میں موجود ہائیڈل پوٹینشل سے فائدہ اٹھانے کے لیے SIFC کی طرز پر "ون ونڈو آپریشن” متعارف کرانے کی تجویز دی، تاکہ پرائیویٹ سیکٹر اور اوورسیز کشمیریوں کے ساتھ مل کر توانائی میں خودکفالت حاصل کی جا سکے۔

انہوں نے عدالتی نظام میں فوری اصلاحات، ججز کی خالی آسامیوں پر تقرری، اور شریعت اپیلٹ بینچ میں گزشتہ سات سال سے خالی عالم جج کی تقرری کا بھی مطالبہ کیا۔ چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین احتساب بیورو کی تقرری کو شفاف اور میرٹ پر مبنی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔

ڈاکٹر مشتاق خان نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے درمیان آئینی، انتظامی اور زمینی روابط کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا، اور میرپور مظفرآباد ایکسپریس وے کو CPEC میں شامل کیے جانے کا خیر مقدم کیا۔

انہوں نے میرپور انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر، ڈرائی پورٹ کے قیام، منگلا ڈیم کے نیٹ ہائیڈل پرافٹ اور اپ ریزنگ پراجیکٹ کے متاثرین کے مسائل کے حل پر بھی زور دیا۔ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے، مقامی حکومتوں کے قیام اور ترقیاتی فنڈز انہی اداروں کے ذریعے استعمال کیے جانے کی تجویز پیش کی۔

طلبہ یونین کی بحالی اور ان کے انتخابات کا مطالبہ بھی کیا گیا، جبکہ موجودہ عوامی تحریک کے تناظر میں حکومت اور ایکشن کمیٹی دونوں سے مذاکراتی عمل بحال کرنے اور لچک دکھانے کی پرزور اپیل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مستقل مزاجی کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا جائے تاکہ ریاستی وحدت اور عوامی یکجہتی کو فروغ دیا جا سکے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.