ایک ایسے دور میں جب دنیا بھر میں سیاسی تقسیم، نظریاتی اختلافات اور عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے، مسلم دنیا کے مرکز سعودی عرب سے ایک اہم سفارتی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جو وژن 2030 کے معمار اور سعودی عرب کی عالمی حیثیت کو نئی شکل دینے والے رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے مسلم دنیا کے کلیدی رہنماؤں کو ایک خصوصی دعوت دی ہے، جس کا مقصد مسلم ممالک کے درمیان اتحاد، باہمی تعاون اور حکمت عملی کی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
اس دعوت کے جواب میں جن معزز رہنماؤں نے سعودی عرب کا دورہ کیا، ان میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق بھی شامل تھے، جن کی موجودگی اور رویے کو نہ صرف سفارتی اہمیت حاصل ہوئی بلکہ اسے سادگی، دیانت اور روحانیت کی شاندار مثال کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کی یہ دعوت ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب مسلم دنیا جغرافیائی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے متعدد چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ علاقائی تنازعات، انسانی بحران، اسلاموفوبیا، اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی منفی تصویر کشی جیسے مسائل نے امت مسلمہ کو ایک متحد موقف اختیار کرنے کی ضرورت کی طرف متوجہ کیا ہے۔
اس ماحول میں سعودی ولی عہد کی طرف سے مسلم قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا نہ صرف ایک دانشمندانہ قدم ہے بلکہ یہ امت مسلمہ کی اجتماعی طاقت کو دوبارہ جگانے کی کوشش بھی ہے۔ سعودی عرب کی قیادت، خاص طور پر محمد بن سلمان، اب جدیدیت، ترقی، اور بین الاقوامی سفارت کاری میں مسلمانوں کی اجتماعی نمائندگی کا چہرہ بنتی جا رہی ہے۔
پاکستان، جو کہ مسلم دنیا کا ایک اہم ملک ہے اور ایٹمی صلاحیت کا حامل واحد اسلامی ملک بھی ہے، سعودی عرب کے ساتھ ایک دیرینہ اور مضبوط تعلق رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی، اقتصادی اور روحانی روابط ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا حالیہ دورہ سعودی عرب بھی اسی تعلق کا حصہ ہے، تاہم اس دورے میں کئی پہلو ایسے ہیں جو اسے خاص بناتے ہیں۔
ایاز صادق کا یہ دورہ نہ صرف بروقت تھا بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی قابلِ تعریف ہے۔ انہوں نے اس موقع پر حج کی سعادت حاصل کی اور اس مبارک سفر کے تمام اخراجات اپنی ذاتی جیب سے ادا کیے۔ جب کہ یہ دورہ سرکاری نوعیت کا تھا، ان کا یہ عمل ملک میں ایک نئی اور مثبت روایت کے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے — ایک ایسی روایت جس میں عوامی نمائندے اپنی روحانی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہوئے عوامی خزانے پر بوجھ نہیں بنتے۔
ایسے وقت میں جب عوامی نمائندوں پر عیش و عشرت، سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور بے احتسابی کے الزامات عام ہیں، ایاز صادق کا یہ قدم دیانت داری، سادگی اور عوامی اعتماد کی ایک زندہ مثال بن گیا ہے۔
یہ رویہ دیگر عوامی نمائندوں کے لیے ایک درخشاں مثال ہے کہ قیادت صرف منصب سے نہیں بلکہ کردار اور قربانی سے پہچانی جاتی ہے۔ سردار ایاز صادق نے ثابت کیا کہ عبادت، خدمت اور سادگی ایک ساتھ چل سکتی ہیں — اور یہی وہ صفات ہیں جو ایک حقیقی عوامی رہنما کی شناخت بنتی ہیں۔